آپ کا سلاماردو نظمشعر و شاعریگلناز کوثر

لائبریری میں

گلناز کوثر کی ایک اردو نظم

خاک آلود جلدوں میں رکھی ہوئی زرد رُو پُتلیاں

مجھ کو حیرت سے تکتی ہیں جیسے کہ میں

جیسے میں ان کے غرفوں میں اُمڈے ہوئے

خواب کا کوئی حصہ نہیں

پیلے اوراق کے مُردہ خانوں کے پیچھے

کہیں کوئی خواہش چھپی ہے …

جو … اب چاہنے پر مرے ہاتھ آتی نہیں

مجھ سے کہتی ہے اے اجنبی کون ہو

اب میں کیسے کہوں

میں انہی زرد آنکھوں سے دیکھے ہوئے

خواب کی ایک تعبیر ہوں

کیسے جوڑوں میں اوراق کے

کند حرفوں سے کوئی تعلق کہ میں تو فقط

میں فقط اک تسلسل کی

موجودہ کڑیوں سے اُلجھی ہوئی

کوئی تحریر ہوں

گلناز کوثر

گلناز کوثر

اردو نظم میں ایک اور نام گلناز کوثر کا بھی ہے جنہوں نے نظم کے ذریعے فطرت اور انسان کے باطن کو ہم آہنگ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ گلناز کوثر کا تعلق لاہور سے ہے تاہم پچھلے کچھ برس سے وہ برطانیہ میں مقیم ہیں، انہوں نے اردو اور انگریزی ادب میں ماسٹرز کرنے کے ساتھ ساتھ ایل ایل بی کی تعلیم بھی حاصل کی، البتہ وکیل کے طور پر پریکٹس کبھی نہیں کی۔ وہ نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے ریسرچ اینڈ پبلیکیشن ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ رہیں، علاوہ ازیں انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے عالمی ادب بھی پڑھایا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ دو ہزار بارہ میں ’’خواب کی ہتھیلی پر‘‘ کے نام سے شائع ہوا اور ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہوا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button