خاک آلود جلدوں میں رکھی ہوئی زرد رُو پُتلیاں
مجھ کو حیرت سے تکتی ہیں جیسے کہ میں
جیسے میں ان کے غرفوں میں اُمڈے ہوئے
خواب کا کوئی حصہ نہیں
پیلے اوراق کے مُردہ خانوں کے پیچھے
کہیں کوئی خواہش چھپی ہے …
جو … اب چاہنے پر مرے ہاتھ آتی نہیں
مجھ سے کہتی ہے اے اجنبی کون ہو
اب میں کیسے کہوں
میں انہی زرد آنکھوں سے دیکھے ہوئے
خواب کی ایک تعبیر ہوں
کیسے جوڑوں میں اوراق کے
کند حرفوں سے کوئی تعلق کہ میں تو فقط
میں فقط اک تسلسل کی
موجودہ کڑیوں سے اُلجھی ہوئی
کوئی تحریر ہوں
گلناز کوثر