خیال و خواب بن کے میرے ذہن سے لپٹ گئے
وہ اتنی دور ہو گئے کہ فاصلے سمٹ گئے
صبا ہمیں تلاش کر کے زخم زخم ہو گئی
سنا ہے خوشبوؤں کے سارے قافلے پلٹ گئے
تعلقات کا سفر ہے اور تیز دھوپ ہے
رفاقتوں کے راستے کے سارے پیڑ کٹ گئے
خراب موسموں کے شور میں خلوص بہہ گیا
جو ناخدا بنے تھے اپنی ناؤ لے کے ہٹ گئے
خلا میں اب بدن سنبھالتے رہو تمام عمر
کہ حادثے تو پاؤں کی زمین لے کے ہٹ گئے
ادھوری زندگی کو اب لئے پھریں کہاں کہاں
کتاب دل سے اس کے نام کے ورق تو پھٹ گئے
وہ آنکھ بھر کے اپنے داغ دیکھتا نہ دیکھتا
یہ آئنوں کو کیا ہوا کہ سامنے سے ہٹ گئے
نئی صدی سلام کرنے آ رہی تھی جعفریؔ
چراغ پھینک کر ہمیں گپھاؤں میں پلٹ گئے
قیصر الجعفری