- Advertisement -

عشق کی رہ نہ چل خبر ہے شرط

میر تقی میر کی ایک غزل

عشق کی رہ نہ چل خبر ہے شرط
اول گام ترک سر ہے شرط

دعوی عشق یوں نہیں صادق
زردی رنگ و چشم تر ہے شرط

خامی جاتی ہے کوئی گھر بیٹھے
پختہ کاری کے تیں سفر ہے شرط

قصد حج ہے تو شیخ کو لے چل
کعبے جانے کو یہ بھی خر ہے شرط

قلب یعنی کہ دل عجب زر ہے
اس کی نقادی کو نظر ہے شرط

حق کے دینے کو چاہیے ہے کیا
یاں نہ اسباب نے ہنر ہے شرط

دل کا دینا ہے سہل کیا اے میر
عاشقی کرنے کو جگر ہے شرط

میر تقی میر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
میر تقی میر کی ایک غزل