معمولی بے کار سمجھنے والے مجھ سے دور رہیں
مجھ کو اک آزار سمجھنے والے مجھ سے دور رہیں
پاگل پن میں آکر پاگل کچھ بھی تو کرسکتا ہے
خود کو عزت دار سمجھنے والے مجھ سے دور رہیں
منزل کی خواہش ہے جن کو آئیں میرے ساتھ چلیں
رستوں کو ہموار سمجھنے والے مجھ سے دور رہیں
دل کے اچھے بندے کے لہجے میں تلخی ہوتی ہے
لہجے کو تلوار سمجھنے والے مجھ سے دور رہیں
ہر اک صف میں شامل بھی ہوں،ہر اک صف سے باہر بھی
مجھ کو جانب دار سمجھنے والے مجھ سے دور رہیں
میں تو ہر منزل کی جانب جانے والا رستہ ہوں
میرے کو دیوار سمجھنے والے مجھ سے دور رہیں
آنچل اور ملبوس پہ جن کی آنکھیں چپکی رہتی ہوں
اُن کو باکردار سمجھنے والے مجھ سے دور رہیں
فیضِ عالم بابر خود بھی یار ہے جانے کس کس کا
یاروں کو مکار سمجھنے والے مجھ سے دور رہیں
فیضِ عالم بابر