آپ کا سلاماردو شاعریاردو نظمگلناز کوثر

سلِیپ ڈِس آرڈر

گلناز کوثر کی ایک اردو نظم

تو پھر سے سرد رات نے

پٹخ دیا ہے نیند کو

پھٹی پھٹی نگاہ میں

خمار کا

ذرا بھی شائبہ نہیں

نہ گرد خواب کا گماں

کسی خیال کا دھواں

یہ میں ہوں اور

وقت کی منڈیر سے

تھکے تھکے خموش پل

پھسل رہی ہیں ساعتیں

سکوتِ دل کو راحتیں

نہ رنج کی شکایتیں

سمیٹتی ہے رات کچھ

مسافتوں کی بے بسی

بہت سپاٹ زندگی

اُچاٹ دل میں خیمہ زن

کوئی ملال بھی نہیں

شب سیاہ کی نظر سے جھانکتا

کوئی سوال بھی نہیں

ملال کوئی ہے اگر

پسِ شعور

وقت کی صلیب پر

جھکا ہوا

سوال کوئی ہے اگر

برونِ سطح آب کو

ابھی سے اس کی کیا خبر …

ایک برزخ کھلا ہے مری روح میں

کیسا حیلہ کروں

رات کٹتی نہیں

ایک برزخ کھلا ہے مری روح میں

اندھی اُلفت کی بے تاب سی سرخوشی

دوڑتی ہے مرے جسم میں

بے بیاں وصل کی لذتیں

میرے احساس میں گل کھلاتی ہیں

شب کچھ ڈھلکتی ہے

اور ساتھ ہی

میری پلکیں بھی

خواب اور خواہش کی آغوش میں

ڈھلکی ڈھلکی سی ہیں

پر اچانک کہیں جاگتی ہے کوئی کپکپی

خوف کی زد میں آئے ہوئے

جان و دل

اِک کماں ایسے کھنچتے چلے جاتے ہیں

ایک سایہ کھرچتی ہوں اپنے بدن سے مگر

ایسا ممکن نہیں

کیسا حیلہ کروں

رات کٹتی نہیں

مجھ سے آ کے یہ کہتی ہے

اترو مری تیرگی میں جہاں

کوئی روزن نہیں

کوئی رستہ نہیں

ایک برزخ کھلا ہے مری روح میں

رات کٹتی نہیں

کیسا حیلہ کروں

گلناز کوثر

گلناز کوثر

اردو نظم میں ایک اور نام گلناز کوثر کا بھی ہے جنہوں نے نظم کے ذریعے فطرت اور انسان کے باطن کو ہم آہنگ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ گلناز کوثر کا تعلق لاہور سے ہے تاہم پچھلے کچھ برس سے وہ برطانیہ میں مقیم ہیں، انہوں نے اردو اور انگریزی ادب میں ماسٹرز کرنے کے ساتھ ساتھ ایل ایل بی کی تعلیم بھی حاصل کی، البتہ وکیل کے طور پر پریکٹس کبھی نہیں کی۔ وہ نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے ریسرچ اینڈ پبلیکیشن ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ رہیں، علاوہ ازیں انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے عالمی ادب بھی پڑھایا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ دو ہزار بارہ میں ’’خواب کی ہتھیلی پر‘‘ کے نام سے شائع ہوا اور ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہوا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button