- Advertisement -

کوئی میرا درد کیوں بانٹے

عائشہ قمر کی ایک اردو تحریر

زندگی میں جب دکھ کے طویل باب انسان پر کھلتے ہیں جن کو پڑھنا انسان پر سانس لینے کی طرح واجب ہوجاتا ہے تو وہ واجب چیز کا حق ادا کرنے کے لیے اکثر زیادہ آکسیجن کی آرزو کرنے لگتا ہے ۔ یہ آکسیجن کیا ہے؟ ایک درد میں جکڑے ہوئے انسان کو یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ فلاں فلاں چیز اس کے دکھ درد کا ازالہ کر سکتی ہے لیکن جب ایسا نہیں ہوتا تو وہ انسانوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے خصوصاً کسی ایک خاص انسان کی طرف لیکن اس بات میں بھی کوئی حقیقت مجھے نظر نہیں آتی ۔اصل حقیقت تو اس بات میں پنہاں ہے کہ کوئی اور آپ کے دکھ میں حصےدار کیوں ہو؟ وہ دکھ یا تو آپ کی قسمت میں لکھا ہے یا آپ کی کسی غلطی کی سزا ہے تو پھر کوئی دوسرا آپ کے نصیب کے غم یا آپ کی غلطیوں کی سزا کیوں برداشت کرنا چاہے گا؟ (یہ بات بہت تلخ ہے، لیکن تلخ حقیقت نہیں ۔کیوں کہ حقیقت صرف حقیقت ہوا کرتی ہے اس کو تلخ بنانے والے ہم خود اور ہمارا مائنڈ سیٹ ہوتا ہے) بہرحال موضوع کی طرف آتے ہیں اس بات کو اس طرح سمجھتے ہیں کہ مثال کے طور پر آپ کسی تکلیف میں مبتلا ہیں اور اس سے نکلنے کے لیے آپ کو واحد حل کوئی انسان نظر آتا ہے تو آپ اصل میں دنیا سے واقف ہی نہیں کیونکہ "کوئی میرا درد کیوں بانٹے” اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے ساتھ ساتھ کوئی اور بھی دکھی ہو تو آپ اس معاشرے کے لیے اور اپنے لیے بھی نہایت ٹوکسک (toxic) انسان ہیں ۔کیونکہ غم میں مبتلا انسان نہ تو خود ترقی کر سکتا ہے اور نہ دوسرے کو کرنے دیتا ہے۔ (یہ بات اس صورت میں ہے کہ کوئی آپ کے دکھ میں شریک ہوگیا اور اس کے بعد وہ بھی اس سے نہ نکل سکے) جب دوسرے بھی ترقی نہیں کر پاتے تو رفتہ رفتہ لوگ اس زہریلے وار کا شکار ہوجاتے ہیں اور معاشرے کے بگاڑ کا باعث بنتے ہیں۔ اور وہ معاشرہ جو ترقیاتی لحاظ سے پست ہو وہاں مختلف اقسام کے مسائل جنم لیتے ہیں جن میں اہم معیشت، جنسیت اور منفی سوچ ہیں۔اس لیے اپنے درد سے خود نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے اگر آپ بار بار ناکام ہو رہے ہیں تو کسی سے مدد لینے میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن اگر آپ نے اپنی سوچ ہی یہ بنا لی ہے کہ کوئی ہو جو آپ کے درد کو سمجھے اور لوگ اس کے مطابق آپ سے رویہ اختیار کریں تو یہیں رک جائیں کیونکہ اگے مایوسی کا دلدل ہے ۔ توقعات نہ پوری ہونے کی گہری کھائی ہے جس میں گرنے کے بعد آپ جڑنے کے بجائے مزید ٹوٹ جائیں گے ۔اور یہ ایک ایسے معاشرے کا قیام وجود میں لائے گا جو اپنے ساتھ مزید برائیوں کا طوفان لائے گا۔ ہمارے معاشرے میں موجود لوگ اس کو اکثر پیار کا نام دیتے ہیں کہ اس پیار کی وجہ سے "اس کا دکھ میرا دکھ ہے” یہاں قابلِ غور بات یہ ہے کہ یہ محض ایک روایتی جملہ ہے جو ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں ۔ ایسا ہوتا شاید ہی کسی نے دیکھا ہو۔ اس روایتی جملے کے ساتھ ایک اور جملہ بچپن سے ہماری سماعتوں سے ٹکرتا آرہا ہے کہ دنیا میں اگر کوئی بےلوث محبت کرتا ہے تو وہ ماں ہے ۔ پھر مجھے بتائیں جب ایک ماں ہی اپنے بچے کے درد کو اس درجے پر نہیں سمجھ سکتی جب وہ بھی بےبس ہے تو باقیوں کی کیا بات کرنی؟ یاد رکھیں "جو درد آپ کو ہے وہ آپ کو ہی ہے” ۔ اور وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ابھی بھی اس دنیا میں ہمدرد لوگ موجود ہیں، ابھی بھی رحمدل افراد ہیں، ابھی بھی کوئی ایسا ہے جو ان کا درد محسوس کر سکتا ہے تو ان سے میرا بس ایک ہی سوال ہے اگر کسی وجہ سے وہ انسان آپ کی زندگی میں نہ رہے تو کیا آپ اس نام نہاد معبود کے لیے خود کو مار لیں گے؟ اس لیے سکون دنیاوی چیزوں اور انسانوں کو چھوڑ کر اپنے اندر تلاش کریں ۔ ( فلمیں کم دیکھا کریں تاکہ اس ذہنی فتور سے بچ سکیں اور اگر دیکھیں بھی تو فلم سمجھ کر دیکھیں جس کو لکھنے سے پہلے ہی مصنف نے روایتی خوشگوار اختتام کا فیصلہ کرلیا تھا) پس خود کو اس خود اذیتی سے بچائیں کیونکہ ” آپ ایک چمکتے ہوئے ستارے ہیں کسی بھی صورت یہ روشنی کسی کو چھیننے نہ دیں۔”

 

از قلم : عائشہ قمر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
عائشہ قمر کی ایک اردو غزل