تیرے دل میں اگر نہیں رہتے
اِس طرح ہم سفر نہیں رہتے
بات والوں کی بات رہتی ہے
بات والوں کے سَر نہیں رہتے
باز آئیں نہ جو بغاوت سے
ان پرندوں کے پَر نہیں رہتے
رزق ہو، عشق ہو کہ کارِ سخن
جن کو سودا ہو گھر نہیں رہتے
دل سے جو ایک در کے ہوتے ہیں
وہ کبھی در بہ در نہیں رہتے
ہاتھ آتے ہی مسندِ مطلوب
آپ کیوں معتبر نہیں رہتے
چل تو پڑتے ہیں بیش تر نازش
اور پھر بیش تر نہیں رہتے
شبیر نازش