تعبیر کچھ تو ہو کبھی میرے بھی خواب کی
بیٹھی ہوں منتظر میں تو کب سے جواب کی
یوں روح پر ہے چھائی ہوئی رُت عذاب کی
آنکھوں کی میری ہو گئی رنگت گلاب کی
پانی ہی پانی تھا زمیں سے آسماں تلک
آنکھیں تھیں میری یا تھی روانی چناب کی؟
میں سُن رہی ہوں وقت کی سرگوشیاں سبھی
میری بہار پر گھڑی آئی عذاب کی!
آنکھوں میں میری ہے چمک تیرے ہی پیار کی
اور تجھ کو لگ رہی ہے یہ صورت سراب کی!
اُلجھی ہے میری زندگی ناہید اس طرح
جیسے کہانی ہو کوئی غمگیں کتاب کی
ناہید ورک