آپ کا سلاماردو غزلیاتشعر و شاعریضمیر قیس

سوچ رہا ہوں الٹی سیدھی کوئی

ضمیر قیس کی ایک اردو غزل

سوچ رہا ہوں الٹی سیدھی کوئی تو تصویر بنے
کاغذ پر اک پھول نگاروں ، پت٘ی پت٘ی تیر بنے
نیندوں کی چک٘ی میں پیسوں گندم بھوکے خوابوں کی
رات برابر ہانڈی رکھوں ، مٌٹھی بھر تعبیر بنے
دو مرلے کے کھیت میں ہوں دس بارہ ملکوں کی فصلیں
مٹی میں طی٘ارے بیجوں ، میلوں کی جاگیر بنے
زندہ ریت بچھا دوں مردہ ہوتے ریگستانوں میں
لاوے سے میں برف نکالوں ، ریشم سے زنجیر بنے
انگاروں کی اینٹیں گاڑوں موم کے ٹھنڈے گارے پر
ہڈیوں سے پاتال میں بنیادی طرز ِ تعمیر بنے
گردابوں کی تہ میں کوئی باغ اگاؤں بانسوں کا
لشکر بیڑے زہر میں ڈوبیں ، منڑکوں سے انجیر بنے
بیلوں کے سینگوں پر باندھوں نفرت کے سب بنجر تخت
پودوں کے ہتھیار سے دنیا جیتوں وہ تدبیر بنے
عبرت کی تختی کو لیپوں شکر کی تازہ گاچی سے
زخم کی کچ٘ی پس کو ماروں ، مرہم پٌر تاثیر بنے
قیس مرادوں کے بالوں میں کٌنڈل ہیں لاچاری کے
ورنہ سوچوں کی کنگھی سے اچھا خاصا چِیر بنے

ضمیر قیس

حسن ِ مقطع
سوچوں میں بھی قیس تماشا آخر کتنا جائز ہے
چھوڑ فقیرا ، حجرے چلئے ، ممکن ہے تقدیر بنے

ضمیر قیس

ضمیرقیس ملتان سے تعلق رکھنے والا شاعر ہے غزلوں کے دو مجموعے شائع ہوچکے ہیں اس کے پہلے مجموعے سے ہی اس کی غزل اٹھان نے ثابت کردیا تھا کہ ملتان سے غزل کا ایک اہم شاعر منظر عام پر آرہا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button