آپ کا سلاماردو تحاریراردو کالمزتحقیق و تنقید

سندھو کے کنارے سے

انور علی کی ایک اردو تحریر

سندھو کے کنارے سے ایک سروئیر کی پکار

میں ہر روز جب اپنی آنکھیں صبح کی پہلی کرن پر کھولتا ہوں، تو میرے سامنے سندھ کا دریا ہوتا ہے۔ میں ایک سروئیر ہوں، اور میری ڈیوٹی اس وقت سکھر بیراج پر ہے۔ 2003 سے میں اسی میدان میں کام کر رہا ہوں — گڈو بیراج، کوٹری بیراج، اور اب سکھر بیراج۔ سندھ کے تمام کینالوں کا سروے کر چکا ہوں۔
مگر آج کل میرے دل میں ایک عجیب بےچینی ہے، ایک نامکمل بات، ایک سوال جو دل میں گونج رہا ہے:
میں کوئی بڑا سروئیر نہیں ہوں، نہ ہی خود کو دوسروں سے زیادہ قابل سمجھتا ہوں۔ پاکستان میں مجھ سے بہتر اور تجربہ کار سروئیر موجود ہیں۔ مگر قسمت یا تقدیر، جو بھی کہہ لیجیے، نے مجھ پر خاص کرم کیا۔ مجھے وہ موقع ملا، جو شاید ہر کسی کو نہ ملا ہو — سندھ کے پورے آبپاشی نظام کو قریب سے دیکھنے، اس پر کام کرنے، اسے پڑھنے اور محسوس کرنے کا موقع۔
میری نوکری کا سارا سفر سندھ کے واهن اور بیراجوں سے جڑا رہا ہے۔

سندھ کے بیراج — قدرت کے نظام پر ضرب

2003 سے میں مسلسل سندھ کے مختلف بیراجوں اور ان سے نکلنے والے کینالز پر کام کرتا رہا ہوں۔
گڈو بیراج پر کام کرتے ہوئے میں نے گھوٹکی فیڈر کے ساتھ نارا کینال، مٹھڑاؤ کینال، کھپرو کینال کے سروے کیے۔
سکھر بیراج پر رائس کینال، دادو کینال، نارتھ ویسٹ کینال، اور دیگر شاخوں پر کام کیا۔
کوٹری بیراج پر، لیفٹ بینک کینال، اکرم واہ، سیہون میں دانستر کینال اور اڑال کینال کے منصوبوں میں حصہ لیا۔
LBOD اور RBOD کے بھی سروے کیے، جہاں میں نئون کوٹ سے لے کر سمندر تک پہنچا۔

عجیب بات یہ ہے کہ میری نوکری کی ساری کہانی صرف سندھ کے پانی سے جڑی رہی۔
میں نے کبھی سندھ سے باہر نوکری نہیں کی — نہ پنجاب، نہ بلوچستان۔
جیسے قدرت نے مجھے یہاں بھیجا ہو، تاکہ میں اپنی دھرتی کے پانی کے درد کو محسوس کر سکوں۔
میں دن رات سندھ کے واهن پر چلا ہوں، پانی کے بہاؤ کو ماپا ہے، اس کے دکھوں کو پڑھا ہے، اور اس کی خاموش فریاد کو سنا ہے۔

بیراج: ترقی یا تقسیم؟

جب میں ان بیراجوں پر کام کرتا تھا، تو ایک سوال ہمیشہ میرے ذہن میں رہتا تھا:
"یہ بیراج بنانے کی اصل ضرورت کیا تھی؟ اگر یہ نہ بنتے تو کیا ہوتا؟”

سندھ کا دریا لاکھوں سالوں سے بہہ رہا تھا۔ ہزاروں نسلوں کی پیاس بجھائی، زراعت کو سیراب کیا، اور زمین کو زرخیز بنایا۔
مگر پھر بیراج بنے — پانی کو روکنے، بانٹنے، اور کسی خاص طبقے کے حوالے کرنے کا نظام قائم ہوا۔
شاید اس وقت یہ نظام انسان کی بھلائی کے لیے بنایا گیا ہو، مگر آج میں دیکھتا ہوں کہ یہ نظام قدرت سے ٹکراؤ ہے۔
بیراجوں کی تعمیر کے بعد پانی کی تقسیم طاقتور کے ہاتھ میں آگئی۔
کسی کو زیادہ ملا، کسی کو کم، اور کسی کو بالکل بھی نہیں۔
یہ انصاف تھا یا ناانصافی؟

میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کیسے ایک طرف زمینیں سرسبز ہیں، تو دوسری طرف کھیت سوکھے پڑے ہیں۔
کیسے ایک علاقہ خوشحال ہے، تو دوسرا تباہ حال۔
کیسے پانی پر سیاست کی گئی، کیسے علاقوں کو تقسیم کیا گیا، اور کیسے سندھ اور پنجاب کے بیچ فاصلے بڑھائے گئے۔

انگریزوں کا منصوبہ — پانی پر قبضہ

جب میں نے تاریخ کو کھنگالا، تو حیران رہ گیا۔
بیراج بنانے کا اصل مقصد مقامی لوگوں کی بہتری نہیں تھا۔
انگریز جب یہاں آئے، تو ان کی نظر صرف زرعی پیداوار پر تھی۔
انہوں نے بیراج بنا کر پانی کو قابو کیا، پیداوار بڑھائی، اور یہ اناج انگلینڈ بھیجنے لگے۔
قدرتی بہاؤ کو روک کر، طاقتور جاگیرداروں اور وڈیروں کو پانی کا کنٹرول دیا گیا، تاکہ منافع بڑھایا جا سکے۔
پانی پر قبضہ کیا گیا، تاکہ طاقت کی بازی کھیلی جا سکے۔

اقبال کا درد — مغرب کی گمراہی

میرے ذہن میں اکثر علامہ اقبال کے اشعار گونجتے ہیں، خاص طور پر جب میں پانی کی تقسیم کو دیکھتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ کیسے مغرب نے ہمیں تقسیم کیا:

دلیلِ کم نظری سے مغرب کے ساحلوں پر
یہ مدرسہ نہیں ہے، فقط کھیل ہے، تماشا ہے!

اقبال نے مغربی تہذیب کو "گمراہی” کہا، کیونکہ اس کا مقصد علم نہیں، بلکہ طاقت پر قبضہ ہے۔
انگریزوں نے بھی یہی کیا — پانی پر قبضہ کیا، وسائل کو روکا، اور ہمیں آپس میں لڑوایا۔
ہمیں سمجھنا ہوگا کہ اصل دشمن وہ نظام ہے، جو ہم پر مسلط کیا گیا ہے۔

میری سوچ کا انجام — ایک پیغام

میں کوئی بڑا لکھاری نہیں، نہ ہی کوئی فلسفی۔
میں بس ایک سروئیر ہوں، جو سندھ کے پانی سے جڑا ہوا ہے۔
میں ان واهن کے کنارے چلا ہوں۔
میں ان بندوں پر کھڑا ہوا ہوں، جنہوں نے پانی کو قید کر رکھا ہے۔
میں ان آنکھوں میں جھانکا ہوں، جو پانی کے لیے ترستی ہیں۔
اور میں یہ کہتا ہوں:
سندھ اور پنجاب کا کوئی جھگڑا نہیں ہے۔
یہ جھگڑا پانی پر قبضے کا ہے۔
یہ جھگڑا ان نظاموں کا ہے، جو انگریزوں نے بوئے، اور ہم آج تک انہیں پانی دے رہے ہیں۔
"پانی پر قبضہ، سوچ پر قبضہ ہے۔”
اگر ہم قدرت کے ساتھ چلتے، تو پانی خود سب تک پہنچ جاتا۔
ہمیں پانی پر قبضے کے بجائے، ایک دوسرے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ہمیں پانی کی سیاست ختم کرنی ہوگی، تاکہ نفرتیں ختم ہوں۔
ہمیں پانی کو آزاد کرنا ہوگا، تاکہ انسانوں کے ذہن بھی آزاد ہو سکیں۔
اور میں یقین رکھتا ہوں کہ…
اگر سوال سچا ہے، تو جواب ضرور ملے گا…!

انور علی

انور علی

انور علی — عزم اور خدمت کا سفر انور علی کا تعلق لاڑکانہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں، خیر محمد آریجا تحصیل باقرانی سے ہے۔ بچپن سے ہی تعلیم کے لیے جدوجہد کی، جہاں وسائل کی کمی اور معاشرتی ناانصافیاں تھیں۔ علامہ اقبال کے فکر اور خودی کے تصور نے انہیں زندگی کا نیا مقصد دیا۔ آج، انور علی اپنے وسائل سے ایک تعلیمی فاؤنڈیشن چلا رہے ہیں، جو 275 غریب بچوں کو مفت تعلیم فراہم کر رہی ہے۔ ان کا خواب ہے کہ یہ بچے معاشرے کے قابل اور ذمہ دار فرد بنیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کا اصل مقصد دوسروں کے لیے جینا ہے، اور انہوں نے اپنی زندگی انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر دی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button