آپ کا سلاماختصاریئےاردو تحاریرشاکرہ نندنی

شعلۂ عشق کے اسرار

شاکرہ نندنی کی ایک اردو تحریر

وادیِ کناعن کے گہرے جنگلات میں، جہاں ہر شجر گویا رازوں کی گواہی دے رہا تھا، ایک چھپے ہوئے باغ کی خاموشی میں تین دلربا ہستیاں موجود تھیں۔ ان کے حلیے گویا حسن کی تعریف کے نئے پیمانے طے کرتے تھے۔

ایسٹر، سنہرے بالوں والی، جن کے لبوں پر مسکان تھی گویا کوئی پوشیدہ راز سناتی ہو۔ ایوا، تیکھے نقوش اور چمکدار آنکھوں والی، جس کی نگاہ میں ایک باغیانہ چمک تھی، اور آخر میں اولف، مضبوط اور پرعزم، گویا کوئی شہسوار ہو جو ان دونوں کے بیچ میں کسی غیر مرئی قوت کے سبب موجود تھا۔ اندھیری رات کی خموشی میں، چاندنی نے جنگل کے پتوں پر اپنا جادو بکھیرا تھا۔ ایسٹر نے دبے لہجے میں ایوا سے کہا، "ایوا، یہ جنگل ہمیں اپنی طرف بلاتا ہے، گویا کوئی پوشیدہ راز ہمیں اپنے حصار میں لینے کو بے تاب ہو۔”

ایوا نے گہری مسکراہٹ کے ساتھ کہا، "ایسٹر، یہ جنگل نہیں، یہ اولف کی موجودگی ہے جو ہمیں ایک دوسرے سے قریب کر رہی ہے۔” اولف، جو دور ایک درخت سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا، ان دونوں کے درمیان ہونے والے اس مکالمے کو خاموشی سے سن رہا تھا۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز تھی، گویا وہ کسی فیصلے کی دہلیز پر کھڑا تھا، اور اس کی آنکھوں میں ایک پرانی کہانی کی گہری دکانی تھی۔

ایسٹر اور ایوا دونوں اولف کی طرف بڑھیں، ان کے چہرے پر ایک ایسی کشش تھی جو کسی بھی انسان کو بے خود کر سکتی تھی۔ ایسٹر نے آہستہ سے کہا، "اولف، کیا تمہیں کبھی ایسا محسوس ہوا کہ زندگی کے سب سے حسین لمحے وہ ہوتے ہیں جب کوئی ہمیں سمجھتا ہے، بغیر کچھ کہے؟”

اولف نے گہری سانس لی، اور اس کی نگاہ میں کچھ ایسا تھا جیسے وہ ایسٹر اور ایوا کے دلوں کی دھڑکن سن رہا ہو۔ "ایسٹر، میں نے ہمیشہ تم دونوں کے درمیان ایک عجیب سی کشش محسوس کی ہے، گویا یہ جنگل تم دونوں کے رازوں کا گواہ ہے۔” ایوا نے آہستہ سے اولف کی طرف جھک کر کہا، "اولف، اگر یہ جنگل گواہ ہے، تو آج کی رات ہم اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے دیں۔”

چاندنی کی نرم روشنی میں وہ تینوں جھیل کے کنارے تک پہنچے۔ ایسٹر اور ایوا نے اپنے نرم اور ملائم ہاتھوں کو اولف کے ہاتھوں میں تھام لیا۔ جھیل کے پانی میں ان کے عکس گویا محبت کی نئی کہانی لکھ رہے تھے، اور ان کی نظریں ایک دوسرے میں گم ہو چکی تھیں۔ ایسٹر نے آہستہ سے کہا، "ایوا، کیا تم نے کبھی سوچا کہ وہ لمحے کہاں ہیں جب ہمیں ایک دوسرے کی موجودگی میں سکون ملتا ہے؟ جب آنکھوں کی زبان وہ باتیں کرتی ہے جو الفاظ نہیں کر پاتے؟”

ایوا نے اولف کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، "اولف، تم وہ لمحے ہو جو ہمیں زندگی کی اصل حقیقت سمجھاتا ہے۔ تمہاری موجودگی میں ہم دونوں کا دل ایک ہی دھڑکن پر دھڑکتا ہے۔”

اولف نے ان دونوں کو اپنے قریب کھینچ لیا، اور ان کی گہری سانسوں کی آواز جنگل میں گونجنے لگی۔ "تم دونوں میری زندگی کی وہ روشنی ہو، جو میری دنیا کو روشن کرتی ہو۔ آج کی رات، کوئی بھی فاصلہ یا دیوار ہمارے درمیان نہیں آئے گی۔”

چاندنی کی روشنی میں، ان تینوں نے اپنے دلوں کے جذبات کو آزاد کر دیا۔ ایسٹر اور ایوا کی نظریں اولف میں ڈوب گئیں، اور ان کے جسموں کی قربت میں ایک ایسا سکون تھا جو کبھی کسی لفظ میں نہیں آ سکتا۔ وہ رات ایک ایسی داستان بن گئی، جس کا کوئی آغاز نہ تھا اور نہ ہی کوئی اختتام۔ جنگل کے درخت، جو ہمیشہ خاموش رہتے تھے، آج اپنی سرگوشیوں میں ان کے جذبات کی گواہی دے رہے تھے۔

شاکرہ نندنی

شاکرہ نندنی

میں شاکرہ نندنی ہوں، ایک ماڈل اور ڈانسر، جو اس وقت پورٹو، پرتگال میں مقیم ہوں۔ میری پیدائش لاہور، پاکستان میں ہوئی، اور میرے خاندانی پس منظر کی متنوع روایات میرے ثقافتی ورثے میں جھلکتی ہیں۔ بندۂ ناچیز ایک ہمہ جہت فنکارہ ہے، جس نے ماڈلنگ، رقص، تحریر، اور شاعری کی وادیوں میں قدم رکھا ہے۔ یہ سب فنون میرے لیے ایسے ہیں جیسے بہتے ہوئے دریا کے مختلف کنارے، جو میری زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button