قصہ ہست و بود سے آگے نکل گیا
میں عارضی وجود سے آگے نکل گیا
جنت کی آرزو ہے نہ دوزخ کا ڈر مجھے
خوف زیاں و سود سے آ گے نکل گیا
دستار کو اتار کے زنار توڑ کر
اس ظاہری نمود سے آگے نکل گیا
تفریق کفر و شرک و ایماں نہیں رہی
ان مذہبی قیود سے آگے نکل گیا
رستہ بنا کے آپ ہی اپنا میں چل پڑا
تقلید کے جمود سے آگے نکل گیا
سلیم فائز