مَیں تجھے دیکھ نہ لوں
شعر نہیں کہہ سکتا
مجھے تجھ سے محبت ہے
مرے دشمن
میں جینا چاہتا ہوں
تیرے ہونٹوں میں مگر یہ تازہ کلیوں کا مہکتا
شبنمی جادو کچھ ایسا ہے کہ جس نے مجھ کو اپنے لمس کی
گرہوں میں کس کر باندھ رکھا ہے
گُلِ رخ سار کا آتش صفت رنگِ تکلّم
اور نزاکت کی سنہری ڈوریوں میں جو تلاطم خیزیاں ہیں، میرے سینے کی کسی محراب کے اندر دھڑکتے دِل کی سطحِ غم نما کی سمت لپکی آ رہی ہیں، آتی جاتی سانس کی لہریں تک اس آتش نمائی میں سلگ کر ٹوٹی جاتی ہیں
نظر کے زاویوں میں
کوئی گہری بات کرنے اور پھر اُس کو پرکھنے کے لیے ہاتھوں کی پوروں میں کوئی معلوم حدّت منتقل کرنے پھر اُس حدّت کی شدّت خاص کر دل کی رگوں میں جذب کر دینے میں جو تجھ کو مہارت ہے قیامت ہے
مِ رے دُشمن
میں تجھ سے اور ترے لشکر سے بچ کر کس طرف نکلوں!
کہیں پر تیری پلکیں خیمہ زن ہیں
اور کہیں زلفوں کے سائے ہیں
گُلِ رخسار کی آتش صفت رعنائی
اپنے تیر و ترکش سے مزین ہے
کہیں ہونٹوں کی شمعیں ہیں
کہیں آنکھیں ہیں
بے حد خوب صورت اور گہری، اِک طلسمِ خاص
میں ڈوبی ہوئی آنکھیں
یہ آنکھیں ایک ریشم کی طرح
میری اَنا کی سخت جاں دیوار کو اندر سے باہر سے لپٹتی جا رہی ہیں اور مجھے لگتا ہے ذرّہ ذرّہ کر کے یہ حصارِ ذات اب مسمار ہونے سے کسی صورت بچایا جا نہیں سکتا
ایوب خاور