خواب کھُلنے لگا آغازِ نمو میں اپنے
وہ خدوخال لہکتے ہیں لہو میں اپنے
دوست تو دوست ہے دشمن بھی برابر کا چنو
ہو بہو ہم نظر آتے ہیں عدو میں اپنے
کیسے پہچانتی ہے آنکھ نئے لفظوں کو
کیسے رم کرتی ہے آواز گلو میں اپنے
ایک وہ پیاس جو بجھتی ہے سبو سے اپنی
ایک یہ آگ جو ہوتی ہے سبو میں اپنے
یہ کوئی چوغہ نہیں بیٹھ کے سی لیتے ہیں
زخم آتے ہیں کہاں دستِ رفو میں اپنے
میں تیمم کو یہاں خاک طلب ہوں آزر
لوگ مصروف سرِ دست وضو میں اپنے
دلاور علی آزر