قرب کی ابتدا کو پہنچے ہیں
بخت کی انتہا کو پہنچے ہیں
ماند لگنے لگے ستارے بھی
ایسے شہرِ ضیا کو پہنچے ہیں
اب کے سیراب ہو گئے صحرا
اتنے آنسو گھٹا کو پہنچے ہیں
ایسی مہکار چھپ نہیں سکتی
خواب دستِ صبا کو پہنچے ہیں
میٹھے چشمے اُبل پڑے ہر سُو
آج ضربِ عصا کو پہنچے ہیں
پیار تقسیم کا نہیں قائل
کرنے والے فنا کو پہنچے ہیں
عقل حیرت کدوں میں رہتی ہے
عشق والے خدا کو پہنچے ہیں
آہ نکلی تھی روزنِ دل سے
راز کتنے صبا کو پہنچے ہیں
اب کے جلنا نصیب ہے اپنا
اب کے ایسی چتا کو پہنچے ہیں
شازیہ اکبر