اِک لمحے کو جی نہیں لگتا پیارے صاحب
اب کچھ اچھا ہی نہیں لگتا پیارے صاحب
دل پر ہاتھ رکھو اور سچ سچ بتلاؤ
یہ پتھر اصلی نہیں لگتا پیارے صاحب
درد بھی کم پڑجاتا ہے کچھ سینے میں
زخم بھی اب کافی نہیں لگتا پیارے صاحب
جیسا تم بوو گے ویسا کاٹو گے
یہ نسخہ جعلی نہیں لگتا پیارے صاحب
یہ دُنیا اور اس دُنیا کے سب چکر
سب ہیرا پھیری نہیں لگتا پیارے صاحب
ممکن ہے دل نے اس کو بہکایا ہو
یہ مجرم عادی نہیں لگتا پیارے صاحب
اِس کی چھاؤں میں بیٹھ گیا تھا دھوپ سَمے
پیڑ مرا کچھ بھی نہیں لگتا پیارے صاحب
ذہن کہیں اُلجھا رہتا ہے فُرصت سے
بس دل ہی جلدی نہیں لگتا پیارے صاحب
قیصرمنور