ہمارا معاشرہ جس تیزی سے اخلاقی زوال کا شکار ہو رہا ہے، اس کا سب سے مہلک وار ہماری آئندہ نسلوں پر ہو رہا ہے۔ وہ بچے جو ابھی زندگی کے مفہوم کو سمجھنے کے ابتدائی مرحلے میں ہیں، وہ بچیاں جن کے چہروں پر حیا اور معصومیت کے رنگ جھلکتے ہیں، ان پر وہ ظلم ہو رہا ہے جس کا تصور بھی کلیجہ چیر دیتا ہے۔ ہر روز کہیں نہ کہیں ایک درندہ، انسان کے چہرے میں چھپا، کسی معصوم کا بچپن روند رہا ہوتا ہے۔
یہ کوئی خیالی کہانی نہیں، یہ وہ زمینی حقیقت ہے جو ہمارے اسکولوں، مدرسوں، گلیوں، گھروں اور حتیٰ کہ عبادت گاہوں میں سرایت کر چکی ہے۔ اور بدقسمتی سے ہم میں سے اکثر اسے ”بدنامی“ کے ڈر سے چھپاتے ہیں، خاموشی اختیار کرتے ہیں یا بے حسی سے گزر جاتے ہیں۔ مگر خاموشی اب جرم بن چکی ہے، اور اس جرم کا خمیازہ بچے بھگت رہے ہیں۔
معاشرتی زوال کی سب سے تکلیف دہ شکل وہ ہوتی ہے جب درندے تعلیم، دین، قرابت یا اعتماد کے نقاب میں گھس آتے ہیں۔ کبھی وہ اسکول کے استاد ہوتے ہیں، کبھی قاری صاحب، کبھی محلے کا دکاندار یا کبھی گھر کا ملازم۔ ایسے لوگ نہ صرف بچوں کا جسمانی استحصال کرتے ہیں بلکہ ان کا ذہنی، جذباتی اور روحانی قتل بھی کرتے ہیں۔ اور سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ ان کا جرم اکثر خاندان کے اندر، معاشرتی خاموشی کی چادر اوڑھ کر دفن کر دیا جاتا ہے۔
ایسے حالات میں والدین کی ذمہ داری محض بچوں کو کھانا، کپڑا اور تعلیم دینا نہیں بلکہ انہیں تحفظ کا شعور دینا بھی ہے۔ بچوں کو یہ سکھانا ضروری ہے کہ اگر کوئی انہیں کسی اکیلی جگہ لے جانا چاہے تو وہ صاف انکار کر دیں۔ انہیں سکھائیں کہ ان کا جسم ان کا حق ہے، کوئی بھی، چاہے جتنا قریبی کیوں نہ ہو، اگر انہیں چھونے کی کوشش کرے تو وہ غلط ہے۔ بچوں کو یہ احساس دیا جائے کہ وہ کسی بھی مشکوک رویے پر آواز بلند کر سکتے ہیں۔
بچوں کو اپنی حفاظت کے لیے کچھ بنیادی اصول یاد ہونے چاہئیں۔ جیسے کہ کسی اجنبی سے کھانے پینے کی چیز نہ لیں، کوئی شخص اگر یہ کہے کہ تمہارے والد بلا رہے ہیں تو کہیں کہ والد خود آ جائیں، کسی بھی بڑے یا استاد کی دھمکی، جیسے کہ ”تم جہنم میں جاؤ گے“ یا ”فیل کر دوں گا“ کو اپنے والدین کے ساتھ فوراً شیئر کریں۔ اور سب سے اہم بات، اگر خدانخواستہ کوئی ان کا استحصال کرے اور وہ یہ کہے کہ ”اگر گھر میں بتایا تو جان سے مار دوں گا“ تو بچے اُس لمحے خاموش رہیں، لیکن جیسے ہی موقع ملے اپنے والدین کو اعتماد میں لیں۔
یہی اعتماد اصل میں سب سے بڑی ڈھال ہے۔ اگر بچے والدین کے سامنے خود کو محفوظ محسوس کریں گے تو وہ ہر بات بلا جھجک بتائیں گے۔ لیکن اگر والدین خود فاصلے پیدا کریں، بچے کی بات کو نظرانداز کریں، اسے شرمندہ کریں یا اس پر غصہ کریں تو وہ بچہ کسی سانحے کے بعد بھی خاموش ہی رہے گا، اور مجرم کی طاقت بڑھتی جائے گی۔
یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ خطرہ صرف اجنبیوں سے نہیں ہوتا، بلکہ قریبی جان پہچان والے لوگ بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔ گھر کے ملازمین، رشتہ دار، یا وہ لوگ جنہیں ہم ”اپنا“ سمجھتے ہیں، اکثر معصوم بچوں پر بری نظر رکھتے ہیں۔ ایسے میں والدین کو صرف محبت کافی نہیں، چوکسی بھی لازم ہے۔
آج کے دور میں صرف جسمانی حملہ ہی نہیں بلکہ ڈیجیٹل استحصال بھی بڑھ چکا ہے۔ بچے یوٹیوب، گیمز، انسٹاگرام، فیس بک اور دیگر پلیٹ فارمز پر مجرموں کے نشانے پر آ سکتے ہیں۔ والدین کو نہ صرف بچوں کے آن لائن معمولات پر نظر رکھنی چاہیے بلکہ ان کے ساتھ ایسا تعلق قائم کرنا چاہیے کہ بچہ کسی بھی عجیب پیغام یا ویڈیو کو فوراً شیئر کرے، بغیر کسی خوف کے۔
یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ دیہی علاقوں میں یہ خطرہ کئی گنا زیادہ ہے۔ وہاں شرم، غیرت، اور سادگی کی چادروں میں اکثر ایسے واقعات دبا دیے جاتے ہیں۔ دیہات کی بچیاں اکثر دکانوں، مدرسوں یا کسی خالہ، پھوپھی کے گھر تنہا جاتی ہیں جہاں ان کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ لہٰذا والدین کو ایسے معاشرتی رویوں پر نظرثانی کرنی چاہیے، اور بیٹیوں کو بھی اتنی خوداعتمادی دینی چاہیے کہ وہ ہر لمحے اپنی حفاظت کو مقدم رکھیں۔
آخری بات یہ ہے کہ بچوں کو خاموش رہنے کی نہیں، بولنے کی تربیت دیں۔ انہیں یہ یقین دلائیں کہ اگر ان کے ساتھ کوئی ظلم ہوا تو وہ قصوروار نہیں، بلکہ قصوروار وہ ہے جو ظلم کرتا ہے۔ انہیں یہ اعتماد دیں کہ ان کے والدین ہر حال میں ان کے ساتھ ہوں گے۔
اگر آج ہم نے بچوں کی تربیت صرف نصابی کتب اور رٹے تک محدود رکھی، تو کل ہمیں ایسی خبریں پڑھنی پڑیں گی جو شاید صرف خبروں تک محدود نہ ہوں بلکہ ہمارے اپنے گھروں کی داستان ہوں۔ اور پھر ہم صرف پچھتا سکیں گے۔
یوسف صدیقی