- Advertisement -

پانی کی گڑیا

میمونہ احمد کا اردو افسانہ

پانی کی گڑیا

حمیدہ حمیدہ وہ حمیدہ کی گردان پڑھتے ہوئے جلد ی جلدی دروازے سے داخل ہو تی ہو ئی سیدھی حمیدہ کے گھر کے صحن میں پہنچ گئی، کیا ہوا شبنم ؟خیریت ! تم بڑی جلد ی میں آئی ہو، سب ٹھیک ہے نا ! ہاں ری حمیدہ سب ٹھیک ہے لیکن تم نے دیکھا وہ اپنی رانیا ہے نا انھوں نے نیا گھر بنو الیا ہے،قسم سے کیا بتاؤں اتنا پیارا گھر بنوا لیا ہے ان لوگوں نے ! جب اللہ کسی کے دن پھیرتا ہے تو اس کی روشنی ساری دنیا میں پھیل جاتی ہے، ہاں بالکل شبنم تم ٹھیک کہتی ہو، میں نے کل دیکھا تھا جا کے میں تو رانیا کو مبارک باد بھی دے کے آئی تھی،اچھا مجھے ابھی بتا دیا ہوتا تو اکٹھے چلے جاتے اور میں بھی مبارک باد دے آتی، ہاں تو پھر کیا ہو ا میں پھر تمھارے ساتھ چل پڑوں گی یہ تو رہا ساتھ والی گلی میں ان کا گھر ۔ ٹھیک ہے پھر، لیکن ایک با ت ہے رانیا نے جتنی غربت دیکھی اور صبر کیا اللہ نے اس کا اجر دنیا ہی میں دے دیا ہے۔ہاں بات تو شبنم تمھاری ٹھیک ہے، مجھے یا د ہے جب وہ اس محلے میں شادی کرا کے آئی تھی تو اس کا خاوند صرف ایک درزی تھا پھر کتنی محنت کی دونوں میاں بیوی نے اب دیکھو ایک فیکٹری بنا لی اور اس کی بیٹی دیکھی تم نے شبنم اپنی ما ں جیسی ہی سمجھ دار ابھی نو سال کی ہی تو ہے لیکن ایمان سے بہت سمجھ دار ہے، شبنم نے بھی اس کی ہا ں میں ہا ں ملائی،اچھا حمیدہ اب جا تی ہوں بس تمہیں یہی بتانے آئی تھی،بچے آ گئے ہوں گے سارے سکول سے ،تالا دیکھے گے تو پریشان ہو جائیں گے، اچھا ٹھیک ہے جا و۔
رانیا جو تیرا سال پہلے اس سلطانیہ محلے میں بیاہ کر آئی تھی وہ ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتی تھی، پھر اس کے ماں با پ نے اس کی شادی بھی اپنے جیسے خاندان میں ہی کر دی تھی،قربان علی جو ایک درزی تھا کپڑے سیتا تھا اور کپڑے سی کر ہی روز مرہ کی ضروریات پورا کر لیا کرتا تھا، لیکن اب رانیا کی ذمہ داری بھی اسی پر تھی تو وہ زیا دہ کا م کر تا تھا تاکے اپنی بیو ی کی ذمہ داری بھی پوری کرسکے، اتفاق ایسا ہوا کے رانیا بھی کپڑے سینے میں ماہر تھی اور اپنے میکے میں مشہور تھی اس حوالے سے، لیکن ایک خواہش تھی اس کے دل میں جو وہ کبھی اپنی زبان پر نہ لا ئی تھی لیکن کبھی وہ خواہش بڑی شدت سے جا گتی تھی لیکن وہ اس خواہش کا گلا دبا دیتی تھی یہ خواہش اس کے بچپن سے ہی اس کے ساتھ بڑی ہو گی تھی لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ وہ کبھی اس خواہش کو لفظ نہیں دیتی تھی، (جانے کیا ہو)
ایک دن جب قربان علی گھر آیا تو اس نے قربان علی سے بات کی کے وہ بھی دن میں فارغ ہو تی ہے وہ بھی کپڑے سی لیا کرئے گی،قربان علی کہنے لگا رانیا بڑی محنت ہو تی ہے اس میں اور تم گھر کا بھی کا م کر تی ہو اور پھر اگر کپڑے سینا تم نے شروع کر دئیے تو تم بیمار ہو جا و گی، نہیں ہوتی میں بیمار اس بہانے مصروف بھی رہوں گی اور آپ کے کام بھی آ جا ؤں گی،چلو جیسے تمھاری مرضی لیکن اپنی صحت سے زیادہ کام نہ کرنا۔ٹھیک ہے وہ جواب دیتی ہے !
کام کرتے کر تے دونوں میاں بیوی کو پورے تین سال ہو گئے ان تین سالوں میں دونوں نے خوب محنت کی شا ئد اس کی وجہ سے ان کی دوکان ڈبل ہو گئی تھی اور خوب مشہور ہوتی جا ری ہے ان تین سالوں میں ان کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہو چکی تھی جس کا نا م دونوں نے خوب سوچ بچار کر کے چاندنی رکھ دیا۔ان کا خاندان مکمل ہو گیا تھا وہ دونوں اپنے رب کے بہت شکر گزار تھے اور رہتے تھے، لیکن اپنی چاندنی کے لیے انھوں نے اور زیادہ محنت کرنا شروع کر دی وہ چا ہتے تھے کے ان کی چاندنی ضرور پڑھ لکھ جائے، وہ اگر پڑھے لکھے نہیں ہیں تو کیا ہے ان کی بیٹی تو ضرور ہو گی، قربان علی ایک اچھا انسان ہے، جو اپنے رشتوں کو بہت احترام کر تا ہے اسی طرح وہ اپنی بیوی کے حقوق بھی اسی طرح خیال رکھتا ہے جیسے اس کی بیوی اس کا خیال رکھتی ہے۔
رانیا اپنی بیٹی کے لیے سکول دیکھنے جانے والی ہے کیوں کہ آج اس کی بیٹی پورے چھ سال کی ہو گئی ہے وہ سوچ رہی تھی حمیدہ یا شبنم کی طرف چلی جائے کیوں کہ ان کے بچے بھی اچھے سکولوں میں پڑھتے ہیں وہ ابھی یہ سوچ رہی تھی کہ حمیدہ اور شبنم دونوں گھر میں داخل ہوئی اور اسلام کر نے کے باد گھر کی مبارک باد دی، خیر مبارک حمیدہ اور شبنم، میں ابھی یہ ہی سوچ رہی تھی کے تم لوگوں کی طر ف ہو آؤں،چلو تم دونوں آ گئی ہو یہ اور بھی اچھا ہوا ہے۔
کیا با ت ہے رانیا، حمیدہ مجھے چاندنی کا داخلہ کرانا ہے کسی اچھے سے سکول سے تم بتا و کون سے سکول میں کرا دوں ؟ ارے یہ میری بیٹیاں جس سکول میں پڑھتی ہیں اس میں داخل کرا دو ! ہاں یہ ٹھیک رہے گا، چلو میری ایک پریشانی تو کم ہو گی،اب کتابیں کاپیاں کل لے آؤں گی چاندنی کے ابو کے ساتھ جا کے ! انشاء اللہ۔ہماری ضرورت پڑے تو رانیا ہمیں بلا لینا ہم بھی تمھارے ساتھ چل پڑے گے، بہت شکریہ آپ لوگ تو ہمیشہ ہمارے کا م آتے ہیں، ارے رانیا یہ کیا بات ہو ئی تم بھی تو ہمارا ساتھ دیتی ہے، نیکی کا بدلہ نیکی ہی ہوتا ہے اور تمھارے کرم جیسے ہیں ویسا ہی پھل تم پا رہی ہو۔ارے حمیدہ تم تو بہت تعریف کر رہی ہو حالانکہ تعریف کے قابل تو صرف اللہ پاک کی ذات ہے ہم لوگوں کو وہ نیکی کے قابل سمجھتا ہے تو کر نے کی توفیق دے دیتا ہے بھلا اس میں ہمارا کیا کمال۔!
بات تو ٹھیک ہے تمھاری،اب ہم لو گ جاتے ہیں پھر کبھی چکر لگائے گے۔ضرور ضرور آنا ! رانیا نے خوشدلی سے جواب دیا۔
رانیا اور قربان علی کی بیٹی اب پورے نو سال کی ہو گئی ہے اور آج وہ اپنی ما ں یعنی کے رانیا سے ضد کر رہی ہے کہ اسے بازار جانا ہے جانے سے نے کیا بازار میں دیکھا جو آج وہ اتنا ضد کر رہی تھی امی چلیں نا ابو امی سے کہیے کے مجھے بازار لے کر چلیں اگر آج بازار نہیں گئے تو وہ چیز جو میں نے پسند کی ہے وہ کو ئی اور لے جائے، ارے رانیا لے جا و نے ہماری لاڈلی کو کتنے عرصے بعد تو کسی چیز کے لیے ضد کر رہی ہے،ٹھیک ہے جا تی ہوں رانیا نے قربان علی کی طرف خفگی سے دیکھا !
چلو چاندنی بیٹا اب کتنی دیر لگا رہی ہو تم ساری دوکانیں تم نے چھا ن ماری ہیں ا ب تک نہیں ملی تمھاری پسندیدہ چیز تو پھر کبھی آ کرے لے لینا۔ نہیں امی مجھے آج ہی لینی ہے کل سکول سے آتے ہوئے ہی تو یہی کہیں کسی دوکان پر دیکھی تھی۔ آپ یہاں اس کر سی پر بیٹھ جاؤ میں وہ سامنے والی دوکان پر دیکھتی ہوں ٹھیک ہے، تھوڑی دیر بعد چاندنی کی خوشی بھری آواز سنائی دیتی ہے،امی جلدی سے آؤؤ دیکھو مجھے مل گئی ہے، کیا مل گئی ہے؟ وہ بہت عجلت میں اُٹھتی ہے اور چاندنی کے پاس پہنچ جاتی ہے چاندنی اپنی ما ں کا ہا تھ پکڑ کر شیشے والی الماری کے سامنے لے جا تی ہے،رانیا جب شیشے کے اندر رکھی ہو ئی اس سبز آنکھوں والی گڑیا کو دیکھتی ہے جس کے سنہری بال ہوتے ہیں جس کو ایک کانچ کے شوپیس کے اندر پانی میں رکھا تھا۔ وہ پانی کی گڑیا جس کی خواہش کبھی اس نے بچپن میں کی تھی جو خواہش کبھی پوری نہیں ہو ئی جو اس کے ساتھ ساتھ بڑی ہو تی گئی آج اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا یہ وہی ویسی ہی پانی کی گڑیا تھی جس کے بارے میں گڑیا والا کہتا تھا۔!
پانی کی گڑیا نہ چلتی ہے نہ پھرتی
پانی کے گھر میں رہتی ہے
کانچ کے دروازوں سے بنا
اس کا پانی کا گھر
پانی کی گڑیا۔۔۔۔
یا اللہ یہ ما جرا کیسا ہے جس گڑیا کے بارے میں اس گڑیا والے نے بتا یا تھے کہ اس جیسی گڑیا دنیا میں اب نہیں بنائے گا کیوں کہ اس گڑیا کو بنا نے والا اس کو بنا نے کے بعد چل بسا تھا یہ وہ خاص وجہ تھی اس گڑیا کی جس کی وجہ سے رانیا کے دل سے اس گڑیا کا خیال جاتا ہی نہیں تھا۔ آج اپنی بیٹی کے لیے وہ پانی کی گڑیا خرید کر جا رہی تھی کیوں کہ اس کی بیٹی کی تو یہ دو دن کی خواہش تھی لیکن وہ تو ایک زمانے سے یہ خواہش لیے بیٹھے تھی۔

میمونہ احمد

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
غزل از اکبر الہ آبادی