جو مرے خون سے رنگے ہیں دوست
بس وہی پھول سونگھتے ہیں دوست
اس سے پہلے بھی رابطہ تھا مرا
آسماں تو ابھی بنے ہیں دوست
جتنا عزت سے دیکھتا ہوں میں
اتنی نفرت سے بولتے ہیں دوست
اسے کس چیز کی ضرورت ہے
جس کے مرشد بھی بن گئے ہیں دوست
جب سے دھوکہ دیا ہے دنیا نے
ہم خدا کے بنے ہوئے ہیں دوست
علی رومی