- Advertisement -

موسم کی شرارت

اردو افسانہ از سعادت حسن منٹو

موسم کی شرارت

شام کو سیر کے لیے نکلا اور ٹہلتا ٹہلتا اُس سڑک پر ہو لیا جو کشمیر کی طرف جاتی ہے۔ سڑک کے چاروں طرف چیڑ اور دیودار کے درخت، اونچی اونچی پہاڑیوں کے دامن پر کالے فیتے کی طرح پھیلے ہوئے تھے۔ کبھی کبھی ہوا کے جھونکے اس فیتے میں ایک کپکپاہٹ سی پیدا کر دیتے۔ میرے دائیں ہاتھ ایک اُونچا ٹیلہ تھا جس کے ڈھلوانوں میں گندم کے ہرے پودے نہایت ہی مدھم سرسراہٹ پیدا کر رہے تھے یہ سرسراہٹ کانوں پر بہت بھلی معلوم ہوتی تھی۔ آنکھیں بند کر لو تو یوں معلوم ہوتا کہ تصور کے گدگدے قالینوں پر کئی کنواریاں ریشمی ساڑھیاں پہنے چل پھر رہی ہیں۔ ان ڈھلوانوں کے بہت اوپر چیڑ کے اونچے درختوں کا ایک ہجوم تھا۔ بائیں طرف سڑک کے بہت نیچے ایک چھوٹا سا مکان تھا جس کو جھاڑیوں نے گھیر رکھا تھا اس سے کچھ فاصلے پر پست قد جھونپڑے تھے۔ جیسے کسی حسین چہرے پر تل۔ ہوا گیلی اور پہاڑی گھاس کی بھینی بھینی باس سے لدی ہوئی تھی۔ مجھے اس سیر میں ایک ناقابلِ بیان لذت محسوس ہو رہی تھی۔ سامنے ٹیلے پر دو بکریاں بڑے پیار سے ایک دوسری کو اپنے ننھے ننھے سینگوں سے ریل رہی تھیں۔ ان سے کچھ فاصلے پر کُتے کا ایک پلّا جو کہ جسامت میں میرے بوٹ کے برابر تھا۔ ایک بھاری بھرکم بھینس کی ٹانگ سے لپٹ لپٹ کر اُسے ڈرانے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ شاید بھونکتا بھی تھا۔ کیونکہ اُس کا منہ بار بار کھلتا تھا۔ مگر اُس کی آواز میرے کانوں تک نہیں پہنچتی تھی۔ میں یہ تماشا دیکھنے کے لیے ٹھہر گیا کتے کا پلّا دیر تک بھینس کی ٹانگوں پر اپنے پنجے مارتا رہا۔ مگر اس کی ان دھمکیوں کا اثر نہ ہوا۔ جواب میں بھینس نے دو تین مرتبہ اپنی دم ہلا دی اور بس!۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ایکا ایکی جب کہ پلّاحملے کے لیے آگے بڑھ رہا تھا۔ بھینس نے زور سے اپنی دم ہلائی۔ کسی سیاہ سی چیز کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر وہ اس انداز سے اُچھلا کہ مجھے بے اختیار ہنسی آ گئی۔ میں ان کو چھوڑ کر آگے بڑھا۔ آسمان پر بادل کے سفید ٹکڑے پھیلے ہُوئے بادبان معلوم ہوتے تھے۔ جن کو ہوا ادھر سے اُدھر دھکیل رہی تھی۔ سامنے پہاڑ کی چوٹی پر ایک قد آور درخت سنتری کی طرح اکڑا ہوا تھا۔ اس کے پیچھے بادل کا ایک ٹکڑا جھوم رہا تھا۔ بادل یہ دراز قد درخت اور پہاڑی۔۔۔۔۔۔۔ تینوں مل کر بہت بڑے جہاز کا منظر پیش کر رہے تھے۔ میں نیچر کی اس تصویر کشی کو بے خود ہو کر دیکھ رہا تھا کہ دفعتاً لاری کے ہارن نے مجھے چونکا دیا۔ خیالوں کی دنیا سے اتر کر میں آوازوں کی دنیا میں آ گیا۔ من کی آنکھیں بند ہو گئیں۔ مساموں کے سارے کان کھل گئے۔ میں فوراً سڑک کے ایک طرف ہٹ گیا۔ لاری پر کار کی طرح بڑی تیزی سے موڑ کے نصف دائرے پرگھومی اور ہوا ہوئی میرے پاس سے گزر گئی۔ ایک اور لاری گزرنے پر موڑ کے عقب میں پانچ چھ گائیں نمودار ہوئیں۔ جو سر لٹکائے ہولے ہولے چل رہی تھیں۔ میں اپنی جگہ پر کھڑا رہا جب یہ میرے آگے سے گزر گئیں تو میں نے قدم اٹھایا اور موڑ کی جانب بڑھا۔ چند گزوں کا فاصلہ طے کرنے پر جب میں سڑک کے بائیں ہاتھ والے ٹیلے کے ایک بہت بڑے پتھر کے آگے سے نکل گیا۔ جو موڑ پر سنگین پردے کا کام دے کر سڑک کے دوسرے حصّے کو بالکل اوجھل کیے ہوئے تھا۔ تو دفعتاً میری نظریں ایک خود رو پودے سے دو چار ہوئیں۔ وہ جوان تھی، اُس گائے کی طرح جوان، جس کے پٹھے جوانی کے جوش سے پھڑک رہے تھے۔ اور جو اس کے پاس سے اپنے اندر ہزاروں کپکپاہٹیں لیے گزر رہی تھی۔۔۔۔۔۔ میں ٹھہر گیا۔ وہ ایک ننھے سے بچھڑے کو ہانک رہی تھی۔ دو تین قدم چل کر بچھڑا ٹھہر گیا اور اپنی جگہ پر ایسا جما کہ ہلنے کا نام نہ لیا۔ لڑکی نے بہتیرا زور لگایا۔ لاکھ جتن کیے وہ ایک قدم آگے نہ بڑھا اور کان سمیٹ کر ایسا خاموش ہوا۔ گویا وہ کسی کی آواز ہی نہیں سنتا۔ یہ تیور دیکھ لڑکی نے اپنی چھڑی سے کام لینا چاہا۔ مگر چیڑ کی پتلی سی ٹہنی کار آمد ثابت نہ ہُوئی۔ تھک ہار کر اس نے بڑی مایوسی اور انتہائی غصّے کی ملی جُلی حالت میں اپنے دونوں پاؤں زمین پر زور سے مارے اور کاندھوں کو جنبش دے کر اس انداز سے کھڑی ہو گئی۔ گویا اس حیوان سے کہنا چاہتی ہے۔

’’لو اب ہم بھی یہاں سے ایک انچ نہ ہلیں گے۔ میں ابھی لڑکی کی اس پیاری حرکت کا مزا لینے کی خاطر ذہن میں دُہرانے ہی والا تھا کہ دفعتاً بچھڑا خود بخود اُٹھ بھاگا۔ وہ اُس تیزی کے ساتھ دوڑ رہا تھا کہ اس کی کمزور ٹانگیں میز کے ڈھیلے پایوں کی طرح لڑکھڑا رہی تھیں۔ لڑکی بچھڑے کی اس شرارت پر بہت متحیّر اور خشمناک ہُوئی۔ نہ جانے میں کیوں خوش ہُوا کہ اسی اثنا میں اُس نے میری طرف دیکھا اور میں نے اس کی طرف ہم دونوں بیک وقت ہنس پڑے۔ فضا پر تاروں کا چھڑکاؤ سا ہو گیا۔ یہ سب کچھ ایک لمحے کے اندر اندر ہوا۔ اُس نے پھر میری طرف دیکھا۔ مگر اس دفعہ سوال کرنے والی لاج بھری آنکھوں سے۔۔۔۔۔۔ شاید اس کو اب اس بات کا احساس ہوا تھا کہ اس کی مسکراہٹ کسی غیر مرد کے تبسم سے جا ٹکرائی ہے۔ وہ گہرے سبز رنگ کا ڈوپٹہ اوڑھے ہُوئے تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ آس پاس کی ہریاول نے اپنی سبزی اُسی سے مستعار لی ہے۔ اس کی شلوار بھی اسی رنگ کی تھی۔ اگر وہ کُرتہ بھی اُسی رنگ کا پہنے ہوتی۔ تو دور سے دیکھنے والے یہی سمجھتے کہ سڑک کے درمیان ایک چھوٹا سا درخت اُگ رہا ہے۔ ہوا کے ملائم جھونکے اس کے سبز دوپٹے میں بڑی پیاری لہریں پیدا کر رہے تھے خود کو بیکار کھڑی دیکھ کر اور مجھ کو اپنی طرف گھورتے پا کر وہ بے چین سی ہو گئی۔ اور ادھر اُدھر یونہی دیکھا کہ جیسے کسی کا انتظار کر رہی ہے۔ پھر اپنے دوپٹے کو سنوار کر اُس نے اُس طرف کا رُخ کیا۔ جدھر گائیں آہستہ آہستہ جا رہی تھیں۔ میں اس سے کچھ فاصلے پر بائیں ہاتھ پتھروں کے پاس کھڑا تھا۔ جو سڑک کے کنارے کنارے دیوار کی شکل میں چُنے ہوئے تھے۔ جب وہ میرے قریب آئی۔ تو غیر ارادی طور پر اُس نے میری طرف نگاہیں اُٹھائیں لیکن فوراً سر کو جھٹک کر نیچے جھکا لیں۔ کولھے مٹکاتی اور چھڑی ہلاتی میرے پاس سے یوں گزری۔ جیسے کبھی کبھی میرا اپنا خیال میرے ذہن سے اپنا کاندھا رگڑ کر گزر جایا کرتا ہے۔ اس کے سلیپر جو غالباً اُس کے پاؤں میں کھُلے تھے۔ سڑک پر گھسٹنے سے شور پیدا کر رہے تھے۔ تھوڑی دور جا کر اُس نے اپنے قدم تیز کیے اور پھر دوڑنا شروع کر دیا۔ بیس پچیس گز کے فاصلے پر وہ پتھروں سے چُنی ہُوئی دیوار پر پھُرتی سے چڑھی اور مجھے ایک نظر دیکھ کر دوسری طرف کود گئی۔ پھر دوڑ کر ایک جھونپڑے پر چڑھ کر منڈیر پر بیٹھ گئی۔ اس کی یہ حرکات۔۔۔۔۔۔ یعنی۔۔۔۔۔۔۔ یعنی۔۔۔۔۔ میری طرف اُس کا تین بار دیکھنا ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا اُس کی مسکراہٹ کے ساتھ میرے تبسّم کے کچھ ذرے تو نہیں چمٹ گئے تھے۔ اس خیال نے میری نبض کی دھڑکن تیز کر دی۔ تھوڑی دیر کے بعد مجھے تھکاوٹ سی محسوس ہونے لگی۔ میرے پیچھے جھاڑیوں میں جنگل کے پنچھی گیت برسا رہے تھے۔ ہوا میں کھُلی ہوئی موسیقی مجھے کس قدر پیاری معلوم ہوئی۔ نہ جانے میں کتنے گھونٹ اس راگ ملی ہوئی ہوا کے غٹاغٹ پی گیا۔ جھونپڑے سے کچھ دُور جھاڑیوں کے پاس لڑکی کی گائیں گھاس چر رہی تھیں۔ ان سے پرے پتھریلی پگڈنڈی پر ایک کشمیری مزدور گھاس کا گٹھا کمر پر لادے اوپر چڑھ رہا تھا۔ دُور۔۔۔۔۔۔ بہت دُور ایک ٹیلے سے دُھواں بل کھاتا ہوا آسمان کی نیلاہٹ میں گھل مِل رہا تھا۔ میرے گردوپیش پہاڑیوں کی بلندیوں پر ہرے ہرے چیڑوں اور سانولے پتھروں کے چوڑے چکلے سینوں پر ڈُوبتے سورج کی زریں کرنیں سیاہ اور سنہرے رنگ کے مخلوط سائے بکھیر رہی تھیں کتنا سُندر اور سہانا سماں تھا۔ میں نے اپنے آپ کو عظیم الشان محبت میں گھِرا ہوا پایا۔ وہ جوان تھی۔ اُس کی ناک اس پنسل کی طرح سیدھی اور ستواں تھی جس سے میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں، اس کی آنکھیں۔۔۔۔۔۔ میں نے اُس جیسی آنکھیں بہت کم دیکھی ہیں اس پہاڑی علاقے کی ساری گہرائیاں ان میں سمٹ کر رہ گئی تھیں۔ پلکیں گھنی اور لمبی تھیں۔ جب وہ میرے پاس سے گزری تھی تو دھوپ کی ایک لرزاں شعاع اس کی پلکوں میں الجھ گئی تھی۔ اس کا سینہ مضبوط اور کشادہ تھا۔ اس میں جوانی سانس لیتی تھی۔ کاندھے چوڑے باہیں گول اور گدراہٹ سے بھرپور، کانوں میں چاندی کے لمبے لمبے بُندے تھے۔ بال دیہاتیوں کی طرح سیدھی مانگ نکال کر گندھے ہوئے تھے جس سے اس کے چہرے پر وقار پیدا ہو گیا تھا۔ وہ جھونپڑے کی مٹیالی چھت پر بیٹھی اپنی چھڑی سے منڈیر کوٹ رہی تھی میں سڑک پر کھڑا تھا

’’کس قدر بیوقوف ہوں‘‘

دفعتہ میں نے ہوش سنبھالا اور اپنے دل سے کہا۔ اگر کوئی مجھے اس طرح اُس کو گھورتا ہوا دیکھ لے تو کیا کہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ یہ کیونکر ہو سکتا ہے۔

’’یہ کیونکر ہو سکتا ہے؟‘‘

جب میں نے ان الفاظ پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ میں کسی اور ہی خیال میں تھا۔ اس احساس پر مجھے ہنسی آ گئی اور یونہی ایک بار اُس کو اور دیکھ کر سیر کے قصد سے آگے بڑھا۔ دو ہی قدم چل کر مجھے خیال آیا کہ یہاں بٹوت میں صرف چند روز قیام کرنا ہے کیوں نہ رخصت ہوتے وقت اُس کو سلام کر لوں۔ اس میں ہرج ہی کیا ہے شاید میرے سلام کا ایک آدھ ذرہّ اسکے حافظے پر ہمیشہ کے لیے جم جائے‘‘

میں ٹھہر گیا اور کچھ دیر منتظر رہنے کے بعد میں نے سچ مچ اُس کو سلام کرنے کے لیے اپنا ہاتھ ماتھے کی طرف بڑھایا۔ مگر فوراً اس احمقانہ حرکت سے باخبر ہو کر ہاتھ کو یونہی ہوا میں ہلا دیا اور سیٹی بجاتے ہوئے قدم تیز کر دئیے۔ مئی کا گرم دن شام کی خنکی میں آہستہ آہستہ گھل رہا تھا۔ سامنے پہاڑیوں پر ہلکا سا دُھواں چھا گیا تھا، جیسے خوشی کے آنسو آنکھوں کے آگے ایک چادر سی تان دیتے ہیں۔ اس دھندلکے میں چیڑ کے درخت تحتِ شعور میں چھپے ہوئے خیالات معلوم ہوئے یہ ایک ہی قطار میں پھیلتے چلے گئے تھے۔ میرے پاس ہی ایک موٹا ساکو ا اپنے سیاہ اور چمکیلے پر پھیلائے سستا رہا تھا۔ ہوا کا ہر جھونکا میرے جسم کے ان حصوں کے ساتھ چھو کر جو کپڑوں سے آزاد تھے ایک ایسی محبت کا پیغام دے رہا تھا جس سے میرا دل اس سے قبل بالکل نا آشنا تھا۔ میں نے آسمان کی طرف نگاہیں اٹھائیں، اور مجھے ایسا محسوس ہُوا کہ وہ میری طرف حیرت سے دیکھ کریہ کہنا چاہتا ہے۔

’’سوچتے کیا ہو۔ جاؤ محبت کرو!‘‘

میں سڑک کے کنارے پتھروں کی دیوار پربیٹھ گیا اور اس۔ اُس کی طرف ڈرتے ڈرتے دیکھا کہ مبادا کوئی رہگزار سارا معاملہ تاڑ جائے۔ وہ اسی طرح سر جھکائے اپنی جگہ پربیٹھی تھی۔ اسے کھیل میں کیا لطف آتا ہے؟۔ وہ ابھی تھکی نہیں؟ کیا اُس نے واقعی دوبارہ میری طرف مڑ کر دیکھا؟ کیا وہ جانتی ہے کہ میں اس کی محبت میں گرفتار ہوں؟‘‘

۔ آخری سوال کس قدر مضحکہ خیز تھا۔ میں جھینپ گیا۔ لیکن۔ لیکن اس کے باوجود اُس کو دیکھنے سے خود کو باز نہ رکھ سکا۔ ایک مرتبہ جب میں نے اس کو دیکھنے کے لیے اپنی گردن موڑی تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس کا منہ میری طرف ہے اور وہ مجھے دیکھ رہی ہے۔ میں مخمور ہو گیا۔ میرے اور اس کے درمیان گو فاصلہ کافی تھا مگر میری آنکھیں جن میں میرے دل کی بصارت بھی چلی آئی تھی، محسوس کررہی تھیں کہ وہ سپنوں کا گھونگٹ کاڑھے میری طرف دیکھ رہی ہے۔ میری طرف۔ میری طرف! میرے سینے سے بے اختیار آہ نکل گئی۔ عجیب بات ہے کہ سکھ اور چین کا ہاتھ بھی درد بھرے تاروں پر ہی پڑتا ہے۔ اس آہ میں کتنی راحت تھی۔ کتنا سکون تھا۔ اس لڑکی نے جو میرے سامنے جھونپڑے کی چھت پر بیٹی تھی۔ میرے شباب کے ہر رنگ کو شوخ کردیا تھا۔ میرے روئیں روئیں سے محبت پھوٹ رہی تھی۔ شعریت جو میرے سینے کے کسی نامعلوم کونے میں سوئی پڑی تھی، اب بیدار ہو چکی تھی۔ کہ دو شیزگی اور شعریت توام بہنیں ہیں؟ اگر اس وقت وہ مجھ سے ہمکلام ہوتی تو میں ایک لفظ تک اپنی زبان سے نہ نکالتا۔ خاموشی میری ترجمان ہوتی۔ میری گونگی زبان کتنی باتیں اس تک پہنچا دیتی۔ میں اس کو اپنی خاموشی میں لپیٹ لیتا۔ وہ ضرور متحیر ہوتی اور اس حالت میں بڑی پیاری معلوم ہوتی۔ اس خیال سے کہ راستے میں یوں بیکار کھڑے رہنا ٹھیک نہیں، میں دیوار پرسے اٹھا۔ میرے سامنے ٹیلے پر جانے کے لیے ایک پگڈنڈی تھی۔ اُوپر ٹیلے کے کسی پتھر پر بیٹھ کر میں اُسکو بخوبی دیکھ سکتا تھا۔ چنانچہ درختوں کی جڑوں اور جھاڑیوں کا سہارا لیکر میں نے اوپر چڑھنا شروع کیا۔ راستے میں دوتین بار میرا پاؤں پھسلا اور نوکیلے پتھروں پرگرتے گرتے بچا۔ ٹیلے پر جہاں پتھر نہیں تھا، کہیں کہیں زمین کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں آلو بوئے ہوئے تھے۔ اسی قسم کے ایک ننھے سے کھیت کو طے کرکے میں ایک پتھر پربیٹھ گیا اور ٹوپی اتار کر ایک طرف رکھ دی۔ میرے دائیں ہاتھ کو زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا تھا جس میں گندم اُگ رہی تھی۔ چڑھائی کی وجہ سے میرا دم پُھول گیا مگر شام کی ٹھنڈی ہوا نے یہ تکان فوراً ہی دُور کر دی۔ اور میں جس کام کے لیے آیا تھا، اس میں مشغول ہو گیا۔ اب وہ جھونپڑے کی چھت پر کھڑی تھی اور خدا معلوم وہ کیسی کیسی انوکھی آوازیں نکال رہی تھی۔ میرا خیال ہے کہ وہ ان دونوں بکریوں کو سڑک پر چڑھنے سے روک رہی تھی، جو گھاس چرتی ہوئی آہستہ آہستہ اوپر کارخ کررہی تھیں۔ ہوا تیز تھی، گندم کے پکے ہُوئے خوشے خُر خُر کرتی ہُوئی بلی کی مونچھوں کی طرح تھرتھرارہے تھے۔ جھاڑیوں میں ہوا کی سیٹیاں شام کی خاموش فضا میں ارتعاش پیدا کررہی تھیں۔ مٹی کے ڈھیلوں کے ساتھ کھیلتا ہوا میں اس کی طرف بہت دیر تک دیکھتا رہا۔ وہ اب جھونپڑے پر بڑے عجیب انداز سے ٹہل رہی تھی۔ ایک مرتبہ اُس نے اپنے سر کو جنبش دی۔ تو میں سمجھا کہ وہ میری موجودگی سے باخبر۔ مجھے دیکھ رہی ہے۔ میری ہستی کے سارے دروازے کھل گئے۔ جانے کتنی دیرمیں وہاں بیٹھا رہا؟۔ ایکا ایکی بدلیاں گھر آئیں اور بارش شروع ہو گئی۔ میرے کپڑے بھیگ رہے تھے لیکن میں وہاں سے کیونکر جاسکتا تھا جبکہ وہ۔ وہیں چھت پر کھڑی تھی۔ اس خیال سے مجھے بڑی مسرت حاصل ہوئی کہ وہ صرف میری خاطر بارش میں بھیگ رہی ہے۔ یکا یک بارش تیز ہو گئی۔ وہ اٹھی اور میری طرف دیکھے بغیر۔ ہاں، میری طرف نگاہ اٹھائے بغیر چھت پر سے نیچے اُتری اور دوسرے جھونپڑے میں داخل ہو گئی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ بارش کی بوندیں میری ہڈیوں تک پہنچ گئی ہیں۔ پانی سے بچاؤ کرنے کے لیے میں نے ادھر ادھر نگاہیں دوڑائیں۔ مگر پتھر اور جھاڑیاں پناہ کا کام نہیں دے سکتی تھیں۔ ڈاک بنگلے تک پہنچتے پہنچتے میرے کپڑے اور خیالات سب بھیک گئے۔ جب وہاں سے سیرکو نکلا تھا تو ایک خشک آدمی تھا، راستے میں موسم نے شاعر بنا دیا۔ واپس آیا توبھیگا ہوا آدمی تھا۔ صرف بھیگا ہوا۔ بارش ساری شاعری بہا لے گئی تھی

سعادت حسن منٹو

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
اردو افسانہ از سعادت حسن منٹو