کسی روشنی پہ بھی اعتماد نہیں رہا
میں چراغ ہوں مجھے خود بھی یاد نہیں رہا
تجھے فکر ہے تری چھتریاں نہیں بِک رہیں
مجھ دکھ ہے عرصۂ ابر و باد نہیں رہا
کوئی ہو جو آگ بجھانے والوں کے ساتھ ہو
جو کہے زمین پہ اب فساد نہیں رہا
میں دھویں کو کر کے نہ دیکھ لوں ذرا معتبر ؟
کہ غبار تو مرا ہم نژاد نہیں رہا
یہاں شاہراہِ ہجوم ہے یہ حیات بھی
سو تجاوزات کا انسداد نہیں رہا
یہ تجوریوں کے خدا سے شرک نہ ہو کہیں
سبھی چابیوں میں جو اب تضاد نہیں رہا
کوئی گھونسلہ نہ اٹھا سکیں مری ٹہنیاں
میں شجر ہوا بھی تو اتنا شاد نہیں رہا
میں یہ سوچتا ہوں کریں گے کیا ترے بد خبر
جنہیں معجزوں سے بھی اب مفاد نہیں رہا
یہ اداس تنہا سے لوگ ہیں جو ضمیر اِنہیں
کبھی عشق تھا بھی تو نامراد ، نہیں رہا
ضمیر قیس