آپ کا سلاماردو نظمشعر و شاعریفارحہ نوید

خراجِ تحسین

فارحہ نوید کی ایک اردو نظم

"محبتیں نچھاور کرنے والے مردِ آہن کے نام خراجِ تحسین”

تذکیر و تانیث کے صیغے میں
جو صیغہ اول اول ہے
وہ صیغہ میرے رب کا ہے
وہ صیغہ فقط مذکر ہے
میرا رب جو "حاضر ناظر” ہے
میرا رب جو "اول آخر” ہے
میرا رب جو ظاہر باطن بھی
میرا رب جو خالق و مالک ہے
اسے صیغہ وہی پسند آیا
جو صیغہ میرے پیمبر کا(ص)
جو صیغہ میرے محرم کا
جو صیغہ اُس اُس ہستی کا
جو ہستی اس میں بستی ہے
میرے رب کی ذات مذکر ہے
میرے رب کی ذات ہی اول ہے
سب صفتیں بانٹیں پیاروں میں
میرے باپ کو خود سا "رحیم”کیا
میرا بھائی "کریمی” صفت کا ہے
میرا شوہر ہر ہر صفت بھرا
محبوب ملا یوں "ودود” ملا
بیٹے کو نظر کا "نور” کیا
میرے رب نے محافظ چاروں طرف
اسی ذات کا پہرہ دے ڈالا
خود جاگتے ہیں ہم بے فکرے!
بس چین، سکون سے سوتے ہیں
خود جلتے بھری دوپہروں کو
ہمیں سائے ٹھنڈے دیتے ہیں
کوئی بوجھ ہمارے شانوں پر
ان پیاروں نے نہ آنے دیا
مخمل سے بھی اعلیٰ چادر دی
جنت سے بھی پیارا محل دیا
خود اپنی صفتیں گھولی تھیں
میرے رب نے ان کی مٹی میں
تبھی ہر ہر چاہت خالص دی
تبھی رحمت سے بھر پور کیا
یہ صنفِ کاہن ہر لحظہ
یوں پہرہ ہمارا دیتی ہے
کوئی حرف بھی گر اٹھے ہم پہ
اس مردِ خدا نے خاک کیا
کوئی ہاتھ نا تن پہ رہنے دے
جو چادر کھینچنا چاہے بھی
خواہ حاضر ہوں یا غائب ہوں
ہر دشمن پہ "قہار” بنا
خود بھوکا رہ کے "رازق” ہے
ہم کچھ مانگیں وہ "خالق” ہے
ہم خلعتِ شاہی زیب کریں
بوسیدہ میں بھی "مالک” ہے
ہم پسلی نازک، ٹیڑھی سی
یہ مردِ مکمل مردِ خدا
یہ اول اس کے بعد ہیں ہم
تبھی اس کی رضا میں شاد ہیں ہم
جو رب کو پیارا رب جیسا
صفات میں اعلیٰ و ارفع
ہم کیوں نا اس پہ ناز کریں
وہی رب کی پسند وہی رب کی عطا
میرے رب نے ان کو میرے لیے
سردار بنایا یونہی نہیں
یہ مردِ مکمل نا ہو تو
نہ تیری بقا نہ میری بقا

فارحہ نوید

فارحہ نوید

السلام علیکم میرا نام فارحہ نوید ہے ۔۔میں لاہور سے تعلق رکھتی ہوں ۔۔ پیشے کے لحاظ سے استاد ہوں الگ الگ نجی اداروں میں عرصۂ دس سال سے اردو انگریزی پڑھا رہی ہوں میرے تحریری سفر کا آغاز کہنے کو تو میٹرک کے بعد ہی شروع ہوگیا تھا مگر گھر والوں کے خوف سے کبھی کھل کر لکھ نہ سکی کہ اس وقت درسی کتب کے علاوہ کچھ لکھنے پڑھنے کی اجازت نہ تھی۔۔ پھر کبھی چھپ چھپا کر اپنی سکول کی سب سے قریبی دوست کے لیے کچھ بھی لکھ کر اسے ضائع کر دیتی تھی۔۔۔ گریجویشن میں کالج کے میگزین میں دو افسانے لکھ کر بھیجے جانے شائع ہوئے کہ نہیں۔۔ مگر میری اردو ادب کے شعبے سے تعلق رکھنے والی دو فرینڈز جن کی لیکچرار سر احمد ندیم قاسمی صاحب کی دختر تھیں وہ میری تحاریر پڑھ کر کافی خوش تھیں اور میری حوصلہ افزائی کرتی رہتی تھیں ۔۔۔ گریجویشن کے بعد میں نے باقاعدہ صوفیانہ کلام لکھنا شروع کر دیے چونکہ عروض سے واقفیت نہیں تھی تو ان کو کبھی پوسٹ نہیں کیا مگر لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔۔ گذشتہ سال لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک شاعر جناب محمد بنیامین ایڈوکیٹ نے میری کچھ پوسٹ ہوئی تحاریر کو سراہا اور مجھے انہی سے عروض سیکھنے کی صلاح دی جس کو میں نے اپنی خوش نصیبی جانا۔۔ اور تقریباً ایک مہینے ان کی بھرپور توجہ اور اپنی محنت سے کافی حد تک عروض پر رسائی حاصل کی۔۔ اور باقاعدہ باوزن اور بامقصد اشعار کہنے لگی انہوں نے مجھے نت نئی مشکل آسان ہر بحر اتنی خوبصورتی سے سمجھائی کہ میرے لیے سب آسان ہوتا چلا گیا ۔۔۔ پھر میرے اشعار کی بُنت روانی اور ردھم ایک اور استاد کی شفقت سے بہتر سے بہتر ہوتی جا رہی ہے اور ان شاءاللہ میں بہت جلد اپنے اساتذہ کے لیے فخر کا باعث بنوں گی۔۔اللہ پاک ان دونوں محترم ہستیوں کو رہتی دنیا تک چمکدار اورسرسبز وشاداب رکھے آمین فارحہ نوید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button