"محبتیں نچھاور کرنے والے مردِ آہن کے نام خراجِ تحسین”
تذکیر و تانیث کے صیغے میں
جو صیغہ اول اول ہے
وہ صیغہ میرے رب کا ہے
وہ صیغہ فقط مذکر ہے
میرا رب جو "حاضر ناظر” ہے
میرا رب جو "اول آخر” ہے
میرا رب جو ظاہر باطن بھی
میرا رب جو خالق و مالک ہے
اسے صیغہ وہی پسند آیا
جو صیغہ میرے پیمبر کا(ص)
جو صیغہ میرے محرم کا
جو صیغہ اُس اُس ہستی کا
جو ہستی اس میں بستی ہے
میرے رب کی ذات مذکر ہے
میرے رب کی ذات ہی اول ہے
سب صفتیں بانٹیں پیاروں میں
میرے باپ کو خود سا "رحیم”کیا
میرا بھائی "کریمی” صفت کا ہے
میرا شوہر ہر ہر صفت بھرا
محبوب ملا یوں "ودود” ملا
بیٹے کو نظر کا "نور” کیا
میرے رب نے محافظ چاروں طرف
اسی ذات کا پہرہ دے ڈالا
خود جاگتے ہیں ہم بے فکرے!
بس چین، سکون سے سوتے ہیں
خود جلتے بھری دوپہروں کو
ہمیں سائے ٹھنڈے دیتے ہیں
کوئی بوجھ ہمارے شانوں پر
ان پیاروں نے نہ آنے دیا
مخمل سے بھی اعلیٰ چادر دی
جنت سے بھی پیارا محل دیا
خود اپنی صفتیں گھولی تھیں
میرے رب نے ان کی مٹی میں
تبھی ہر ہر چاہت خالص دی
تبھی رحمت سے بھر پور کیا
یہ صنفِ کاہن ہر لحظہ
یوں پہرہ ہمارا دیتی ہے
کوئی حرف بھی گر اٹھے ہم پہ
اس مردِ خدا نے خاک کیا
کوئی ہاتھ نا تن پہ رہنے دے
جو چادر کھینچنا چاہے بھی
خواہ حاضر ہوں یا غائب ہوں
ہر دشمن پہ "قہار” بنا
خود بھوکا رہ کے "رازق” ہے
ہم کچھ مانگیں وہ "خالق” ہے
ہم خلعتِ شاہی زیب کریں
بوسیدہ میں بھی "مالک” ہے
ہم پسلی نازک، ٹیڑھی سی
یہ مردِ مکمل مردِ خدا
یہ اول اس کے بعد ہیں ہم
تبھی اس کی رضا میں شاد ہیں ہم
جو رب کو پیارا رب جیسا
صفات میں اعلیٰ و ارفع
ہم کیوں نا اس پہ ناز کریں
وہی رب کی پسند وہی رب کی عطا
میرے رب نے ان کو میرے لیے
سردار بنایا یونہی نہیں
یہ مردِ مکمل نا ہو تو
نہ تیری بقا نہ میری بقا
فارحہ نوید