کیا تھا ترکِ محبت کا تجربہ میں نے
اور اب یہ سوچ رہا ہوں یہ کیا کیا میں نے
اب اپنے آپ کو آواز دیتا پھرتا ہوں
کہ جیسے تجھ کو نہیں خود کو کھو دیا میں نے
یہ دکھ بھی کم تو نہیں ہے کہ نیم سوز چراغ
جلا نہیں تھا کہ اس کو بجھا دیا میں نے
یہ زہر خون کے ہمراہ رقص کرتا ہے
بہت چکھا ہے محبت کا ذائقہ میں نے
بدل رہے تھے بہت اس میں خال و خد میرے
سو خود ہی توڑ دیا اپنا آئینہ میں نے