- Advertisement -

ہچکیوں نے کسی دیوار میں در رکھا تھا

سعود عثمانی کی ایک اردو غزل

ہچکیوں نے کسی دیوار میں در رکھا تھا

میرے آباء نے جب اِس خاک پہ سر رکھا تھا

دل تھے متروکہ مکانات کی صورت خالی

اور اسباب میں بچھڑا ہُوا گھر رکھا تھا

روح پر نقش تھے وہ نقش ، ابھی تک جن میں

رنگ بچپن کی کسی یاد نے بھر رکھا تھا

دل میں سرسبز تھے اُس پیڑ کے پتے ، جس پر

دستِ قدرت نے ابھی پہلا ثمر رکھا تھا

قافلے ایک ہی سرحد کی طرف جاتے تھے

خواب کے پار ، کوئی خوابِ دگر رکھا تھا

لب تک آتے ہی نہ تھے حرف مناجاتوں کے

ہچکیوں نے کسی دیوار میں در رکھا تھا

چشمِ بینا میں وہ منظر ابھی تازہ ہے ، سعود

میرے آباء نے جس اِس خاک پہ سر رکھا تھا

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
سعود عثمانی کی ایک اردو غزل