دوا میں زہر ملائے تو پھر مزہ آئے
طبیب تجھ سا پلائے تو پھر مزہ آئے
سوال آئے محبت کا تیرے پرچے میں
تجھے جواب نہ آئے تو پھر مزہ آئے
جو کندھا آج میسر تجھے ہے سونے کو
مری طرح بھی سلائے تو پھر مزہ آئے
شبِ فراق میں جتنی تپش ہے گرمی ہے
بجھے دیوں کو جلائے تو پھر مزہ آئے
اسے تڑپنا پڑے میری طرح فرقت میں
وہ روئے حشر اٹھائے تو پھر مزہ آئے
خدا سے مانگ رہا ہوں میں جس قدر اسکو
وہ چیختا ہوا آئے تو پھر مزہ آئے
ناصر زملؔ