اب کیسے کہیں تم سے؟
یخ بستہ راتوں میں
بے ربط خیالوں میں
ماضی کے حوالوں میں
رنگین سی دنیا ہے
بے رنگ سے قصے ہیں ۔
بے رنگ سے قصوں میں
چار سو اداسی ہے ۔
اب کیسے کہیں تم سے۔۔؟
بے چین طبعیت ہے
پریشاں سی راتیں ہیں
سنسان سی سڑکوں پر
کچھ زرد سے پتے ہیں
ایک گرم سی کافی ہے۔
تئیس کا دسمبر ہے
ویران دسمبر کی
چند آخری ساعتیں ہیں۔
اب کیسے کہیں تم سے ؟
بےکیف سی دنیا ہے
اداس دسمبر ہے
جاتے ہوئےلمحے ہیں
جاتے ہوئے لمحوں میں
ایک تم کو صدا دی ہے
اب کیسے کہیں تم سے
اب کیسے کہیں تم سے
ویراں نومبر تھا
پر یشاں دسمبر ہے۔
رباب ملک