لوٹ کر جا رہا ماہ رمضاں
دل کو تڑپا رہا ماہ رمضاں
کر سکے نہ ادا اس کا حق ہم
زہد و تقوی میں بھی ہم رہے کم
لڑکھڑاتے رہے دم بدم ہم
ہو رہا تیرے جانے کا اب غم
لوٹ کر جا رہا ماہ رمضاں
دل کو تڑپا رہا ماہ رمضاں
اب کہاں برکتیں سحر و افطار
چار سو نیکیوں کے تھے انبار
تھے عبادت،سخاوت کے پرچار
موج میں کتنے تھے یہ گنہگار
لوٹ کر جا رہا ماہ رمضاں
دل کو تڑپا رہا ماہ رمضاں
بخششوں کا تُو لے کر بہانہ
بھر کے رحمت کا بے حد خزانہ
لے کے جنت اویسؔ ہم کو جانا
ماہ رمضاں تُو پھر لوٹ آنا
لوٹ کر جا رہا ماہ رمضاں
دل کو تڑپا رہا ماہ رمضاں
لوٹ کر آنا پھر ماہ رمضاں
تیرے ہم منتظر ماہ رمضاں
اویس خالد