- Advertisement -

چلو اب مل کے ہجروحَبس کا موسم بدلتے ہیں

ایک اردو کالم از حیات عبد اللہ

چلو اب مل کے ہجروحَبس کا موسم بدلتے ہیں

بہاروں، بادلوں اور بارشوں سے وابستہ یادیں نہایت سہانی ہوتی ہیں، گل و گل زار سے پیوستہ باتیں، خوشبوؤں، رنگوں اور اجالوں سے منسلک لمحات انسان کا دل موہ لیتے ہیں، اس لیے کہ فطرت کا قرب انسان کو جچتا اور سجتا ہے۔فطرت سے ہم آہنگی اسلامی اقدار کا بھی خاصّہ ہے سو اسلام اور فطرت کی دودھیا کرنوں میں نہائے ہوئے انسان جس قدر بھی فہم اور تدبّر سے کام لیتے ہیں ان کے لیے شگفتہ اور تابندہ کردارو عمل کی راہیں واضح اور ہموار ہوتی چلی جاتی ہیں۔فطرت اور قدرت کی متضاد سمتوں میں چوکڑیاں بھرتے انسان ٹھوکریں اور ٹھڈّے کھا کر گرتے ہی چلے جاتے ہیں۔کوّا ہنس کی چال چلا تھا تو اپنی چال ڈھال بھی فراموش کر بیٹھا تھا مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے۔ احساسِ کمتری میں مبتلا ہنس، کوّوں کی چال چلنے پر بہ ضد ہیں اور اپنی وجیہ اور جاذبِ نظر چال کو فراموش کرتے جا رہے ہیں۔انسانی مزاج، رویّے اور معاشرت سے عین مماثلت اور مطابقت رکھنے والے اسلام نے نہ صرف عورتوں کے حقوق خوب اچھی طرح بتلا دیے ہیں بلکہ مسلم و غیر مسلم سے لے کر حیوانات اور حشرات الارض تک کے ساتھ حُسنِ سلوک کی بھی خوب اچھی طرح وضاحت کر دی ہے۔حقوق کا مطلب مادرپدر آزادی اور بے راہ روی ہرگز نہیں ہے۔المیہ یہ ہے کہ یہاں اپنے فرائض سے روگردانی کو حقوق کا نام دیا جاتا ہے۔حقوق کا تعلق تو محبتوں سے ہوتا ہے، جتنی گہری محبتیں ہوں گی اتنے ہی حقوق تکمیل کی راہوں پر کھلتے چلے جائیں گے۔
اپنی شریکِ حیات کے ساتھ محبتوں بھرا یہ انداز تو کسی اور مذہب میں موجود ہی نہیں جو اللہ نے قرآنِ پاک میں بیان فرمایا ہے۔ مسلمان عورتیں اور مرد قرآنِ مقدّس کی اس آیت پر جتنا بھی فخر کریں، کم ہے کہ ایسی دھنک رنگ محبتیں تو کسی اور مذہب کے پیروکاروں کے حصّے میں نہیں آئیں۔ سورۃ البقرہ آیت نمبر 187 میں اللہ ربّ العزت فرماتے ہیں کہ ”وہ (تمھاری عورتیں) تمھارا لباس ہیں اور تم اُن کا لباس ہو“ اس آیت میں لباس کی تشبیہ پر جتنا بھی غور کرتے جائیں گے نئی نئی محبتوں کے نئے نئے رنگ آپ کے دلوں میں بکھرتے جائیں گے۔لباس انسان کی زیب و زینت ہے، یہ شخصیت میں وقار اور نکھار پیدا کرتا ہے، لباس انسان کی بہت ساری خامیوں کو ڈھانپ لیتا ہے۔ حقوق نسواں کے لیے اضطراب میں مبتلا عورتیں خوش ہو جائیں کہ جامع ترمذی حدیث 1162 کے مطابق نبیﷺ نے سب سے کامل ایمان کی علامت یہی بتلائی ہے کہ وہ اپنی عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک روا رکھتا ہے، تحفّظ نسواں کے لیے جتنے کامل و اکمل احساسات نبیﷺ کے دل مبارک میں تھے دنیا کا کوئی نام نہاد عورتوں کے حقوق کا عَلم بردار اس کا عشرعشیر بھی نہیں رکھتا۔ نبیﷺ نے عورتوں کو آبگینوں سے تشبیہ دی، عورتوں کو کانچ کی طرح نازک اندام بیان فرمایا۔ صحیح بخاری حدیث 6149 میں ہے کہ ایک مرتبہ سفر میں اونٹ چلانے والے اونٹ کو تیزی سے ہانکنے لگے، اونٹ پر ازواج مطہرات سوار تھیں، آپﷺ نے اپنے غلام انجشہؓ کو فوراً فرمایا ”افسوس انجشہؓ! آبگینوں (عورتوں) کو آہستگی سے لے کر چل“ اپنی بیویوں کی اتنی خفیف سی تکلیف بھی نبیﷺ کو گوارا نہ ہوئی اور اپنے غلام کو تنبیہ فرما دی۔ یہی نہیں بلکہ قیامت تک کے لیے تمام شوہروں کو نصیحت فرمائی کہ ”کوئی مسلمان شوہر اپنی مسلمان بیوی سے نفرت نہ کرے اگر اسے اس کی ایک عادت پسند نہیں تو دوسری عادتیں پسند ہوں گی“ اور مسلمان بیٹیاں بھی خوش ہو جائیں کہ جب سیدہ فاطمہؓ، نبیﷺ کو ملنے آتیں تو نبیﷺ کھڑے ہو کر ان سے ملتے۔ اکثر و بیشتر خاوند اور بیویوں کے درمیان منافرتوں کا آغاز ”انا“ سے ہوتا ہے جب دونوں جانب انا کی سنگلاخ دیواریں کھڑی ہو جاتی ہیں تو پھر تماشے شروع ہو جاتے ہیں۔
انا جب بے تحاشا ہو
تو پھر کیوں نہ تماشا ہو
خاوند کو اپنے خاوند ہونے کا زعم ہوتا ہے اور بیوی کو اپنی قربانیاں رہ رہ کر یاد آتی ہیں اور یوں انا کو بھیانک انگیخت ملتی ہے اور جدائیوں کے لمحات طویل تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔اگر وہ اپنی اصلاح نہ کریں توپھر وہ ایک دوسرے کے بغیر جینے کا ڈھنگ سیکھ لیتے ہیں۔
کوہِ انا کی برف تھے، دونوں جمے رہے
جذبوں کی تیز دھوپ سے پگھلا نہ تُو نہ میں
عورت نرم ونازک ہے، عورت کا دل کانچ کی مانند ہوتا ہے اور عورت قربانیوں کی عظیم مثالیں قائم کرتی ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود اللہ نے گھر اور خاندان کا سربراہ مرد کو بنایا ہے۔ سورۃ النساء کی آیت 34 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ”مرد، عورتوں پر حاکم ہیں اس بنا پر کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بنا پر کہ مرد اپنا مال عورتوں پر خرچ کرتے ہیں“ حقوق نسواں کا قطعاً یہ مقصد نہیں کہ عورت اور خاوند کی ازدواجی زندگی کے تلخ و شیریں لمحات کی کوئی تیسرا فریق نگرانی کرے۔عورتوں کے حقوق کے لیے آئین سازی کی نہیں، قرآن و سنّت پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ جو بھی مرد تشدّد کی راہیں اختیار کرتا ہے اس کو آسمانی آئین کے مطابق سزا دی جائے، جو اللہ نے نازل فرمایا ہے۔تحفّظِ نسواں کا رٹّا لگانے والے لوگوں نے سب سے زیادہ عورتوں کا استحصال بالجبر کیا ہے۔اگر یہ لوگ حقوقِ نسواں کے معاملے میں مخلص ہوتے تو سورۃ النساء کا مطالعہ کرتے۔یہ چوکوں اور چوراہوں پر عورتوں کے متعلق قرآنی آیات اور احادیث آویزاں کرتے، یہ میڈیا پر اہل علم و دانش سے عورتوں کے حقوق کے ساتھ ساتھ ان کی بنیادی ذمہ داریوں اور فرائض کے متعلق بھی لیکچرز کا اہتمام کرتے۔حقوق نسواں کی تکمیل کے لیے اس قدر بے ترتیب ہونے کی تو چنداں ضرورت نہیں کہ اعتدال کی حدود کو بُری طرح روند دیا جائے۔چراغوں سے گریز پائی، اجالوں اور روشنیوں سے روگردانی اور فطری موسموں سے بے رخی اور بے اعتنائی، نحیف و نزار اور بیمار بصیرتوں کی غمازی کرتی ہے۔میرا مطلوب ہرگز یہ نہیں ہے کہ عورتوں پر تشدّد کرنے والوں کے لیے کوئی گنجایش پیدا کی جائے، میرا مطلوب یہ بھی نہیں ہے کہ ”آٹا گوندھتی ہلتی کیوں ہے؟“ کی بنیاد پر عورتوں کو کرب اور اذیت کے لمحات میں مبتلا کر دیا جائے۔ عورتیں تو دل کش پھولوں اور دل رُبا آبگینوں کی طرح ہوتی ہے، ان کے ٹوٹنے اور بکھرنے کا ہر طرح خیال رکھا جائے لیکن نبیﷺ کے فرمودات لوگوں کے دلوں میں اتار کر، جب قرآن اور نبیﷺ کے فرمان دلوں میں اتریں گے تو پھر خاوند اور بیوی کی محبتیں زبردستی کی نہیں ہوں گی وہ دونوں سچے دل کے ساتھ ایک دوسرے کا ہاتھ، ہاتھوں میں لے کر کہیں گے۔
چلو اب مل کے ہجروحَبس کا موسم بدلتے ہیں
ذرا سا تم بدل جاؤ، ذرا سا ہم بدلتے ہیں

(حیات عبداللہ)

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو غزل از ساحل سلہری