ترے خیال کو بھی فرصتِ خیال نہیں
جدائی ہجر نہیں ہے ملن وصال نہیں
مرے وجود میں ایسا سما گیا کوئی
غمِ زمانہ نہیں ، فِکر ماہ و سال نہیں
اُسے یقین کے سورج سے ہی اُبھرنا ہے
وہ سیلِ وہم میں بہتا ہوا جمال نہیں
دہک اُٹھے مرے عارض، مہک اُٹھیں سانسیں
پھر اور کیا ہے؟ اگر یہ ترا خیال نہیں
نجانے کتنے جہاں منتظر ہیں تیرے لیے
ترے عروج کی پہلے کہیں مثال نہیں
شازیہ اکبر