گزر گیا جو مرے دل پہ سانحہ بن کر
اتر گیا وہ مری روح میں خدا بن کر
ترا خیال شب ہجر پھیلتا ہی گیا
ہزار رنگ کی سوچوں کا سلسلہ بن کر
وفا کے سنگ سے ٹکرا کے احتجاج انا
صلیب لب پہ سسکنے لگا دعا بن کر
بدن کے دشت میں من کی حسین صبحوں کو
نکل رہا ہے غم دہر اژدہا بن کر
کبھی تو دیپ جلیں گل کھلیں فضا مہکے
کبھی تو آ شب ویراں میں رتجگا بن کر
تمام عمر جسے ڈھونڈتے رہے عالؔی
کہیں ملا بھی اگر وہ تو فاصلہ بن کر
جلیل عالی