ایک خوشگوار دھوپ والی سہ پہر، پانچ خواتین کا ایک گروپ گاؤں کے پارک میں جمع ہوا۔ ان کی ہنسی، سویڈش موسمِ بہار کی نرم ہواؤں میں شامل ہو کر برچ کے پتوں کی ہلکی سرسراہٹ کے ساتھ گھل مل گئی۔ وہ ایک پرانی، ہاتھ سے بنی لکڑی کی بینچ پر بیٹھ گئیں، جو برسوں کے سردیوں، خزاؤں اور گرمیوں کی گواہی دیتی تھی، اپنی دراڑوں اور نشانات میں ان گزرے وقتوں کی کہانیاں سناتی تھی۔
قریب ہی ایک عظیم الجثہ برچ کا درخت کھڑا تھا، سویڈن کا قومی درخت، جس کی پتلی، چاندی جیسی چھال اور دور تک پھیلتی شاخیں سورج کی روشنی میں جھلملا رہی تھیں۔ پتوں کا ہلکا سا سرسرانا اس خاموش ماحول میں زندگی کی ایک ہلکی سی سرگوشی کا احساس دلا رہا تھا۔
ایما، جس کے سنہری بال ہوا میں ہلکے ہلکے لہرا رہے تھے، نے سب سے پہلے خاموشی توڑی۔
"کیا تم سب کو یاد ہے؟” اس نے کہا، اس کی آواز میں پرانی یادوں کی نرمی تھی۔ "دس سال ہو گئے ہیں، اور اب بھی، ایسا لگتا ہے جیسے کل ہی کی بات ہو۔”
"دس سال؟” انیسا نے حیرت سے دہرایا، اس کی نیلی آنکھیں درخت کی شاخوں سے چھن کر آنے والی روشنی میں چمک رہی تھیں۔
"مجھے لگتا ہے جیسے ابھی کل ہی ہم اسکول کے آخری دن پر اپنی کتابیں سمیٹ رہے تھے، اور آج ہم یہاں ہیں۔”
"اور وہ دن یاد کرو جب الینا نے کہا تھا کہ وہ اپنی زندگی کا سب سے بڑا قدم اٹھا رہی ہے، اور پھر اس نے… اپنے بال سبز رنگ لیے تھے!” فرِیا نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔ باقی سب بھی بے ساختہ ہنس پڑیں، اور یہ قہقہے نرم ہوا میں بہتے ہوئے برچ کے پتوں میں چھپے پرندوں کے گیتوں کے ساتھ مدغم ہو گئے۔
ہنسی کے بیچ، سِگن، جو عام طور پر سب سے زیادہ خاموش رہتی تھی، آگے جھکی۔ اس کے چہرے پر ہلکی سی فکر کی جھلک تھی۔
"کیا تم سب نے کبھی یہ سوچا ہے کہ ہم کتنے بدل گئے ہیں؟” اس نے دھیرے سے کہا، اس کی آواز گویا ہوا کے ساتھ بہتی ہوئی ایک مدھم سی سرگوشی ہو۔
ہوا میں ایک لمحے کے لیے سکون طاری ہو گیا۔ ہر ایک کے چہرے پر پرانی یادوں کے عکس جھلکنے لگے، ان خوابوں کی جھلک جو انہوں نے جوانی کے دنوں میں دیکھے تھے اور ان حقیقتوں کی چھاپ جو انہوں نے وقت کے ساتھ جھیلی تھیں۔
"بدلاؤ تو آیا ہے،” ایما نے کہا، اور ایک نرم مسکراہٹ اس کے چہرے پر بکھر گئی۔
"لیکن یہ دیکھو، ہم سب اپنی اپنی زندگیاں جی رہے ہیں۔ کچھ کے بچے ہیں، کچھ کے خواب، اور کچھ کے دل میں وہی پرانی بےقراری۔ اور ہم سب اب بھی یہاں اکٹھے ہیں۔”
"یہی سب سے بڑی بات ہے، ہے نا؟” الینا نے کہا، اور اپنے ہاتھ کو سِگن کے ہاتھ پر رکھ دیا، گویا یہ یقین دلا رہی ہو کہ وقت کے بےرحم قدم ان کی دوستی کو نہیں مٹا سکتے۔
"چاہے ہم کتنے ہی دور کیوں نہ ہو جائیں، یہ دوستی ہمیشہ برقرار رہے گی۔”
سورج آسمان پر دھیرے دھیرے نیچے جا رہا تھا، برچ کے پتوں سے چھن کر آنے والی روشنی کو نارنجی اور سنہری رنگوں میں بدلتا ہوا۔ سب کی ہنسی اور کہانیاں بہتے پانی کے جھرنے کی طرح جاری رہیں۔
"یاد ہے، ہم نے خواب دیکھا تھا کہ ہم دنیا گھومیں گے؟” انیسا نے ایک شوخ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
"ہم نے وعدہ کیا تھا کہ ہر سال، ہم کسی نئی جگہ کا سفر کریں گے۔”
"ہاں! اور ہم نے سوچا تھا کہ کچھ بھی ہمیں الگ نہیں کرے گا،” فرِیا نے پرجوش انداز میں کہا۔ "لیکن زندگی… وہ تو ہمیشہ اپنے ہی کھیل کھیلتی ہے، ہے نا؟”
"لیکن ہم نے اسے جیتنے نہیں دیا،” ایما نے کہا، اس کی مسکراہٹ میں ایک جیت کی جھلک تھی۔
"ہمارے خواب اب بھی زندہ ہیں، اور ہمیں ایک اور موقع دینا چاہیے۔ کیا خیال ہے؟ ایک اور لڑکیوں کا سفر؟”
یہ خیال جیسے ایک نئی توانائی بن کر ان کے بیچ پھیل گیا۔ ہر کوئی اپنی پسندیدہ جگہ کے بارے میں بات کرنے لگا—ایک خاموش جھیل، پرانے قصبے کی گلیاں، یا پھر ناردرن لائٹس کا جادوئی منظر۔ ہر تجویز کے ساتھ قہقہے بلند ہو رہے تھے، اور ہر قہقہے کے ساتھ دوستی کی ڈور مزید مضبوط ہو رہی تھی۔
جب سورج بالکل نیچے چلا گیا، اور برچ کے پتوں سے ٹمٹماتے ستارے جھانکنے لگے، سِگن نے اپنے دوستوں کو دیکھا، اس کا دل شکرگزاری کے احساس سے لبریز تھا۔
"جو بھی ہو جائے، ہم ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ رہیں گے۔ اور یہی سب سے بڑی دولت ہے۔”
ان سب نے مسکرا کر اس کی بات کی تائید کی۔ پرانے برچ کے درخت کے نیچے، وہ لمحہ گویا وقت کے سمندر میں رک گیا۔ ایک لمحہ، جو ہمیشہ کے لیے ان کے دلوں میں محفوظ رہنے والا تھا۔
بینچ نے ہلکے سے چرچراہٹ کی، لیکن ان کی ہنسی بلند ہو گئی، سویڈن کے اس پرانے پارک میں گونجتی ہوئی، اس دوستی کی گواہی دیتی ہوئی جو وقت اور فاصلے کی قید سے آزاد تھی۔ اور جیسے ہی برچ کے درخت کے سائے میں ستارے جھلملانے لگے، ان کے دلوں نے سرگوشی کی:
"ہم ایک ساتھ ہیں، اور یہی سب کچھ ہے۔”
شاکرہ نندنی