بن کے دلدار ترے حق میں گواہی دی ہے
اب تو کر پیار ترے حق میں گواہی دی ہے
گرچہ اکساتے رہے اپنے , پرائے بن کر
دل نے ہر بار ترے حق میں گواہی دی ہے
میں نے پرکھوں کی بنائی ہوئی سب رسموں سے
کر کے انکار ترے حق میں گواہی دی ہے
لکھ کے ہاتھوں پہ ترا نام دِکھایا سب کو
سہہ کے آزار ترے حق میں گواہی دی ہے
تیری رنگین شرارت کا بھرم رکھنے کو
بن کے ہشیار ترے حق میں گواہی دی ہے
تونے ہاتھوں میں لیا ہاتھ تو نم آنکھوں نے
میرے غمخوار ترے حق میں گواہی دی ہے
تیری بستی میں نہیں رسم اگرچہ سچ کی
پھر بھی اے یار ترے حق میں گواہی دی ہے
اپنی غزلوں میں محبت کے حسِیں جزبے کا
کر کے پرچار ترے حق میں گواہی دی ہے
منزّہ سیّد