نقش محبت
میرے محبوب
مدت بعد تمہارا خط ملا
بعد احوال کے تمہارا اصرار ہے
” میں تمہاری نظر سے خود کو دیکھنا چاہتا ہوں”
تم پاگل ہوئے ہو۔۔
بھلا جواب میں تمہیں اب کیا لکھوں
اچھا ۔۔سنو !
جون کا ایک گرم دن تھا
سورج جیسے سوا نیزے پر تھا
گھروں کے آنگن بھٹی کی طرح تپ رہے تھے
دور دور تک ہوا کا ایک جھونکا تک نہیں تھا
درختوں پر پتے تک نا ہل رہے تھے
تپتے آسمان پر کوئی پرندہ تک نظر نا آتا تھا
تا حد نظر ۔۔۔۔
بادلوں میں ایک بھی پانی سے بھرا بادل نا تھا
میرا سارا بدن پسینے میں ڈوب رہا تھا
میرے سامنے دوپہر کا کھانا میز پر جانے کب سےرکھا ہوا تھا
مگر گرمی کے مارے ایک لقمہ تک حلق سے نا اتر رہا تھا
زمین پر چٹائی بچھا کر لیٹ رہی ۔۔۔۔ شاید کہ سکون ملے
کچھ ہی دیر بعد چٹائی بھی پسینے میں نہا گئی
مکھیاں جانے کہاں کہاں سے اڑ کر ناک پر بیٹھ رہی تھیں
میں نے بہت ہٹایا تھا پر وہ کہیں اور نا جاتی تھیں
میری جان ۔۔۔ تمہیں کیا بتاؤں
گرمی کے سامنے کیسے میں بے بس ہو گئی تھی
اپنی بے بسی پر بس رو دینے ہی کوتھی کہ دفعتا
بجلی زور سے چمکی اور بادلوں نے شورمچا دیا
ابر سیاہ یوں گھر آئے جیسے لشکر لڑائی کو امنڈے ہوں
میں نے آسمان کو اپنی کھڑکھی سے دیکھا
کالی گھٹایئں کہیں دور سے چلی آ رہیں تھیں
پھر موسلا دھار بارش کے جھالے برسنے لگے
پسینے رک گئے ۔۔ زمین کی تلخی کم ہوگئی
اور وہ ساری مکھیاں جانے کہاں جا چھپیں
زرا تصور تو کرو
وہ لمحہ مسرت کیسا ہوگا ۔۔۔۔؟
میں کھانا کھا رہی تھی ۔۔۔۔ گنگنا رہی تھی
سنو ۔۔
اس پل
میں بارش کی سہیلی ہو گئی تھی
میرے محبوب ۔۔۔
تم میرے لئے
ہر پل ۔۔۔
وہی لمحہ مسرت ہو
آسمانوں پر لکھا نقش محبت ہو
ڈاکٹر نگہت نسیم