چاند کا ٹکڑا آن کدھر سے نکلا ہے
مشکل سے اک درد جگر سے نکلا ہے
حرکت میں بھی کتنی برکت ہوتی ہے
اک دنیا کا کام سفر سے نکلا ہے
اپنی اپنی مذہب کی تعبیریں ہیں
چور بھی صدقہ دے کر گھر سے نکلا ہے
چھپ کے بیٹھ رہا تھا گھر کے اندر بھی
باہر بھی وہ موت کے ڈر سے نکلا ہے
سائنس کی بنیاد میں ہیں اشعار بھرے
لاکھ ہنر اس ایک ہنر سے نکلا ہے
جھوٹ نے ساری بستی کو ویران کیا
قتل کا رشتہ ایک خبر سے نکلا ہے
میرے دل کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا
تیر جو اس کی ایک نظر سے نکلا ہے
چیل اٹھا کر لے جانے کو جھپٹی ہے
سانپ کا بچہ ایک شجر سے نکلا ہے
لوگ تماشا دیکھنے آئے جھلس گئے
شعلہ وہ دیوار و در سے نکلا ہے
اس کے بارے کچھ بھی تو اب یاد نہیں
کوئی ایسے یاد نگر سے نکلا ہے
اس کو بکتے جسم دکھا کر لایا ہوں
سودا پیار کا اس کے سر سے نکلا ہے
کیسے بھیگ نہ جائے اس کا دامن بھی
باہر ہی جو بارش برسے نکلا ہے
آج کسی کی نظروں میں آ جائے گا
بال بنا کر وہ بہتر سے نکلا ہے
کوئی کام نہیں ہے لیکن پھر بھی وہ
کوئی اس کو دیکھ کے ترسے, نکلا ہے
خوشبو اڑتے وقت کہیں سے آتی تھی
بال تمہارا بال و پر سے نکلا ہے
ڈاکٹر فخر عباس