آپ کا سلاماردو غزلیاتشعر و شاعریشہزین وفا فراز
یہی نہیں کہ ترا ضبط آزمانا تھا
شہزین فراز کی ایک اردو غزل
یہی نہیں کہ ترا ضبط آزمانا تھا
ہمیں تو یوں بھی تری زندگی سے جانا تھا
وہ آفتاب ہے، میں روشنی، تُو سیّارہ
ہمارا ساتھ ترے عہد سے پُرانا تھا
جھلستی دھوپ سے لڑنا تھا پہلے خود مجھ کو
پھر اپنے جیسوں کا اک قافلہ بنانا تھا
یہ میرا کام تھا میں رب پہ انحصار کروں
خدا کا کام بڑے معجزے دکھانا تھا
ہاں میری چھت کی بہت دوستی تھی سانپوں سے
اسی لیے تو مرا خون باغیانہ تھا
کسی نے کیسے بھلا پَر کتر دیے میرے
مری اڑان میں تو رنگ فاتحانہ تھا
جہاں پہ سخت مزاجی بہت ضروری تھی
وہیں سلوک مرا کیسے عاجزانہ تھا!
یہ منزلیں تو کسی اور کی تلاش میں تھیں
ہمیں کسی کے لیے راستہ سجانا تھا
اسی لیے تو نہیں نبھ سکی تری میری
مرا شعور ترے جہل کا نشانہ تھا
شہزین فراز