آپ کا سلاماردو غزلیاتشعر و شاعریشہزین وفا فراز

یہی نہیں کہ ترا ضبط آزمانا تھا

شہزین فراز کی ایک اردو غزل

یہی نہیں کہ ترا ضبط آزمانا تھا
ہمیں تو یوں بھی تری زندگی سے جانا تھا
وہ آفتاب ہے، میں روشنی، تُو سیّارہ
ہمارا ساتھ ترے عہد سے پُرانا تھا
جھلستی دھوپ سے لڑنا تھا پہلے خود مجھ کو
پھر اپنے جیسوں کا اک قافلہ بنانا تھا
یہ میرا کام تھا میں رب پہ انحصار کروں
خدا کا کام بڑے معجزے دکھانا تھا
ہاں میری چھت کی بہت دوستی تھی سانپوں سے
اسی لیے تو مرا خون باغیانہ تھا
کسی نے کیسے بھلا پَر کتر دیے میرے
مری اڑان میں تو رنگ فاتحانہ تھا
جہاں پہ سخت مزاجی بہت ضروری تھی
وہیں سلوک مرا کیسے عاجزانہ تھا!
یہ منزلیں تو کسی اور کی تلاش میں تھیں
ہمیں کسی کے لیے راستہ سجانا تھا
اسی لیے تو نہیں نبھ سکی تری میری
مرا شعور ترے جہل کا نشانہ تھا

شہزین فراز

شہزین وفا فراز

میرا‌ نام شہزین وفا فراز ہے۔ میں ایک شاعرہ ہوں۔ بنیادی تعلق حیدرآباد سے ہے لیکن طویل عرصے سے کراچی میں مقیم ہوں۔ ماسٹرز کی تعلیم حیدرآباد سے لی۔ درس و تدریس کے شعبے سے وابستگی رہی۔ شعر کہنے کا آغاز گیارہ سال کی عمر سے کیا۔ کلام باقاعدہ اخبارات و رسائل میں شائع کروانے کا سلسلہ ٢٠٢٢ سے شروع ہوا اور اب تک جاری ہے۔ تین انتخابی کتب "ہم صورت گر کچھ خوابوں کے”، "لطیفے جذبے” اور "سخن آباد” میں میرا کلام شامل ہے۔ اس کے علاوہ حال ہی میں نئ دہلی (انڈیا) سے ایک معروف مصنف رضوان لطیف خانصاحب کی کتاب "تذکرۂ سخنوراں” میں معروف شاعر جناب عبداللہ خالد صاحب کے مختلف مصارع پر طرحی کلام کہنے والے شعراء و شاعرات میں میرا‌ نام‌ بھی شامل کیا گیا ہے الحمداللہ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button