- Advertisement -

جہاں سے بھی آئے

فیصل عجمی کی ایک اردو نظم

جہاں سے بھی آئے

مگر روشنی اور خوابوں کے سب رنگ نظموں میں ہیں

( کسی گل بدن سے چرائے نہیں )

بچا کر مری آنکھ ِ ِ ِ ان میں سے کچھ کو

زمیں سے دھنک تک

بہت کھل کے برسی ہوئی تیز بارش کی

رقصاں ہوا لے گئی

جو باقی بچے ہیں

انہیں چار سُو ہاتھ پھیلائے

بے رنگ پھولوں کو دے دوں

چلو ان پہ کچھ دن بہاروں کا موسم تو آئے

جہاں سے بھی آئے

فیصل عجمی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو غزل از قمر جلال آبادی