اب یہ مسافت کیسے طے ہو ، اے دل ، تو ہی بتا
کٹتی عمر اور گھٹتے فاصلے ، پھر بھی وہی صحرا
شیشے کی دیوار زمانہ ، آمنے سامنے ہم،
نظروں سے نظرروں کا بندھن ،جسم سے جسم جدا،
اپنے گرداب اپنے آپ میں گھلتی سوچ بھلی،
کس کے دوست اور کیسے دشمن ، سب کو دیکھ لیا
راہیں دھڑکیں ، شاخیں کڑکیں ، اک اک ٹیس اٹل
کتنی تیز چلی ہے اب کے دھول بھری دکھنا
دکھڑے کہتے لاکھوں مکھڑے کس کس کی سنیے
بولی تو اک اک کی ویسی ، بانی سب کی جدس
مجید امجد