اب جانا ہے اب جانا اب جانا زمانے کو
اب چھوڑ دیا ہیں میں نے چاہت کے ترانے کو
سپنوں کے سہارے پر چاہا کہ ملوں تجھ سے
سکھ سیج کے سپنے میں یہ بھول ہوئی مجھ سے
سچائی سمجھ بیٹھا جینے کے بہانے کو
جینا ہی مرا کیا ہے جینے کا بہانہ ہے
ہر سانس کے پہلو میں اشکوں کا خزانہ ہے
ہنستا ہوں تو ہنستا ہوں غیروں کے دکھانے کو
سب عمر مری یونہی گذرے گی تو پھر کیا ہے
غم بڑھ کے نہ آئے گا اس غم سے جو دیکھا ہے
کافی ہے یہی دل کا ہر درد مٹانے کو
جوں توں میں چلاؤں گا ٹوٹی ہوئی کشتی کو
اور چاہے زمانے کا ہر تیر ہی زہری ہو
چپ چاپ سہوں گا میں ہر ایک نشانے کو
اب جان لیا میں نے اب جانا زمانے کو
میرا جؔی ثناء اللہ