- Advertisement -

میر تقی میر کے قصے

میر تقی میر کی دلچسپ داستانیں

١) مرزا محمّد تقی خان ترقی کے گھر پر مشاعرہ ہوتا تھا -اور تمام امرائے نامی و شعرائے گرامی جما ہوتے تھے -میر تقی میر بھی وہاں آتے تھے -ایک دفع شیخ قلندر بخش جرات نے غزل پڑھی ،غزل بھی وہ ہی کہ تعریفوں کے شور میں شعر تک نہ سنائی دئے -میاں جرات یا تو اس جوش و سرور میں جو کی اس حالت میں انسان کو سرشار کر دیتا ہے ، یا شوخی مجازی سے میر صاحب کو چھیڑنے کے ارادے سے ایک شاگرد کا ہاتھ پکڑ کے ان کے پاس آ بیٹھے اور کہا کہ حضرت اگرچہ آپکے سامنے غزل پڑھنی بے ادبی اور بےحیائی ہے مگر خیر اس بیہودہ گو نے جو بادہ گوئی کی آپ نے سماعت فرمائی ؟ میر صاحب تیوری چڑھا کر چپ ،رہے جرات نے پھر کہا -میر صاحب کچھ ہوں ہاں کہ کر پھر ٹال گئے -جب انہوں نے پھر کہا تو میر صاحب نے جو الفاظ فرمائے وہ یہ ہیں "کیفیت تو یہ ہے کہ تم شعر تو کہہ نہیں سکتے ، بس اپنی چوما چاٹی که لیا کرو”

٢) ایک مرتبہ میر صاحب کو بہت تکلیف میں دیکھ کر لکھنؤ کے ایک نواب انہیں مع عیال کے اپنے ساتھ لے گئے اور محل سرا کے پاس ایک معقول مکان رہنے کو دیا ، کہ نشست کے مکان میں کھڑکیاں باغ کی طرف تھیں ،مطلب اس سے یہی تھا کہ ہر طرح ان کی طبیعت خوش اور شگفتہ رہے -یہ جس دن وہاں آ کر رہے کھڑکیاں بند پڑی تھیں ،کئی برس گزر گئی اسی طرح بند پڑی رہیں کبھی کھول کر باغ کی طرف نہ دیکھا -ایک دن کوئی دوست آئے ، انہونے کہا کہ ادھر باغ ہے آپ کھڑکیاں کیوں نہیں کھولتے ؟ میر صاحب بولے کہ کیا ادھر باغ بھی ہے ؟ انہونے کہا اسی لئے تو نواب آپ کو یہاں لائے ہیں کہ جی بہلتا رہے اور دل شگفتہ ہو -میر صاحب نے اپنے پھٹے پرانے غزلوں کے مسودے کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ میں تو اس باغ کی فکر میں ایسا لگا ہوں کہ اس باغ کی خبر بھی نہیں -یہ کہ کر چپ ہو رہے

٣) محلے کے بازار میں ایک عطارکی دکان تھی -آپ بھی کبھی کبھی اس کی دکان پر جا بیٹھتے تھے -اس کہ نوجوان لڑکا بہت بناؤ سنگار کرتا رہتا تھا -میر صاحب کو برا معلوم ہوتا تھا -اس پر فرماتے ہیں

کیفیتیں عطار کے لونڈے میں بہت ہیں
اس نسخے کی کوئی نہ رہی ہمکو دوا یاد

کسی وقت طبیعت شگفتہ ہو گئی ہوگی تو فرماتے ہیں

میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
جیمز کاربیٹ کی تحریروں سے اردو ترجمہ