آپ کا سلاماردو تحاریراردو کالمزاسلامی گوشہمحمد یوسف برکاتی

ایک سچی حقیقت

ایک اردو تحریر از محمد یوسف برکاتی

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب

آج کی تحریر میں میں جس سچی حقیقت پر بات کروں گا وہ ہے تو واقعی سچی اور کڑوی لیکن یہ حقیقت بھی ہے کہ ” جب ہمیں اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگنا ہوتا ہے تو ہم اس کی حد مقرر نہیں کرتے یعنی مجھے اتنا دے مجھے اتنا دے بلکہ بے حساب مانگتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ رب بے حساب دینے والا ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ کی راہ میں دینے کی باری آتی ہے تو ہم جیب میں پڑے ان سکوں کو ڈھونڈتے ہیں جو ہمیں جیب میں بھاری محسوس ہوتے ہیں ” ہمارے آج کے اس معاشرے میں بعض لوگ جب غریب ہوتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کی مرضی اور منشاء کے مطابق ان کے دن بدلنا شروع ہو جاتے ہیں اور وقت کے ساتھ وہ دولت مند ہوجاتے ہیں تو ان کے اندر تکبر پیدا ہوجاتا ہے وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ساری دولت انہوں نے اپنی محنت سے کمائی ہے اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اس کی حکمت کے بھی نعوذباللہ وہ خلاف ہوجاتے ہیں پھر ایسے لوگوں میں کچھ لوگوں کے انجام ہمیں دنیا میں نظر آجاتے ہیں اور کچھ لوگوں کا انجام باری تعالیٰ بروز محشر ہمیں دکھائے گا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سب سے پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے طریقے کیا ہیں اور اس کے فضائل کیا کیا ہیں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے یعنی انفاق فی سبیل اللہ کے بہت فضائل ہیں، جن میں اللہ کی رضا، جنت کا حصول، دوزخ سے نجات، مال میں برکت اور غربت میں کمی شامل ہے۔ یہ آخرت میں بہتر اجر کا سبب بنتا ہے اور دنیاوی طور پر معاشرے کی ترقی اور خوشحالی میں مددگار ہوتا ہے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے فوائد دو قسم کے ہوتے ہیں ایک دنیاوی فائدہ اور دوسرا آخرت کا فائدہ دنیاوی فائدوں کی طرف جب ہم دیکھتے هیں تو کسی غریب کی مدد کرنا یتیم کے سر پر ہاتھ رکھنا اور کسی بیوہ کی کفالت کی ذمہ داری لینا ہمارے معاشرے میں غربت کو نہ صرف کم کرنے میں مدد فراہم کرے گا بلکہ لوگوں کو سکون بھی میسر ہوتا اور اس کے عیوض ایک اچھا کام کرنے پر آپ کے دل کو بھی بڑا اطمینان ملتا ہے بالکل اسی طرح مساجد اور مدارس تعمیر کرنے میں معاشرے میں لوگوں کے اندر اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف رغبت اور عبادات کا شوق بڑھتا ہے جبکہ لوگوں کی اس قسم کی ضروریات بھی پوری ہوتی ہیں اور ایسی جگہوں کے لیئے ہم فنڈ جمع کرنے والوں کا ساتھ دیں تو ہمارے معاشرے میں عالم دین مفتی اور حفاظ پیدا ہوں گے جو ہمیں غلط راستوں پر چلنے سے روک کر صحیح اور قرآن و حدیث کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کی راہ دکھائیں گے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کے دل سکون اور اطمینان میسر ہوگا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایسے بیشمار فضائل موجود ہیں جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس طرح خرچ کرنے سے ہمیں حاصل ہوں گے جبکہ جب ہم اخرت کی طرف دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا سب سے بڑا فائدہ اللہ رب العزت اور اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کی رضا کا حاصل ہونا ہے انسان کا یہ عمل اسے دوزخ کی آگ سے دور کرتا ہے اور جنت کی طرف لیکر جاتا ہے جو لوگ دنیا میں صرف خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیئے خرچ کرتے ہیں تو بروز محشر انہیں کوئی خوف یا غم نہیں ہوگا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ دنیا میں کی جانے والی ایسی نیکی کا بدلہ بروز محشر دس بیس نہیں بلکہ سات سو گنا زیادہ ثواب ملتا ہے جیسے سورہ البقرہ کی آیت نمبر 261 میں ارشاد باری تعالیٰ ہوا کہ

مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍؕ-وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(261)

ترجمہ کنزالایمان:
ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانہ کی طرح جس نے اوگائیں سات بالیں ہر بال میں سو دانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لئے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔
سورہ البقرہ کی آیت نمبر 261 میں اللہ تعالیٰ نے صدقے اور خیرات کی فضیلت بیان کی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایک دانے کی طرح ہے جس سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں، یعنی اللہ انہیں سات سو گنا اور اس سے بھی زیادہ اجر و ثواب عطا فرماتا ہے.
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر کتنا کرم ہے جیسے ہم اکثر وبیشتر یہ سنتے آئے ہیں اور ہمارا ایمان بھی اس بات پر بڑا مظبوط ہے کہ رب العالمین اپنے بندے سے ستر مائوں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللّٰہ علیہ والیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ” جو کوئی نیکی کرنے کا ارادہ کرے ابھی کی نہیں ہے لیکن اس کے نامہ اعمال میں ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے اور جب وہ نیکی کا عمل کرتا ہے تو اس کے نامہ اعمال میں دس نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں جبکہ اگر کوئی شخص کسی گناہ کے کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے نامہ اعمال میں کوئی گناہ نہیں لکھا جاتا اور جب وہ گناہ کر بیٹھے تو اس کے نامہ اعمال میں گناہ لکھ دیا جاتا ہے لیکن ایک روایت ایسی بھی ہے کہ اگر گناہ کرنے کے بعد وہ شخص نادم ہو جائے اور توبہ کرلے تو اس کے نامہ اعمال میں لکھے ہوئے ان گناہوں کو بھی معاف کردیا جاتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے متعلق خود باری تعالیٰ قرآن مجید کی سورہ البقرہ کی 245 آیت میں فرماتا ہے کہ

مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضْعَافًا كَثِیْرَةًؕ-وَ اللّٰهُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُۜطُ۪-وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ(245)

ترجمعہ کنز العرفان:
ہے کوئی جو اللہ کواچھا قرض دے تو اللہ اس کے لئے اس قرض کو بہت گنا بڑھا دے اور اللہ تنگی دیتا ہے اور وسعت دیتا ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
یعنی کون ہے جو اللہ کو قرض حسن دے؟ جو اللہ کو قرض حسن دے گا اللہ اسے کئی گنا اضافے کے ساتھ عطا فرمائے گا۔

یعنی کون ہے جو راہ خدا میں خرچ کرتا ہے وہ اپنا مال اللہ کے حضور محفوظ کرلیتا ہے، اور قیامت کے دن جب اللہ اپنے بندے کو اس کا مال عطا فرمائے گا تو کئی گنا اضافے کے ساتھ عطا فرمائے گا، رہی یہ بات کہ کتنا اضافہ کرے گااس کا کوئی حساب نہیں کیونکہ وہ قادر مطلق ہے جو چاہے جیسا چاہے جتنا چاہے جس کے ساتھ چاہے وہ کرے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ لوگ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی کو دیکر آزماتا ہے تو کسی کو نہ دیکر آزماتا ہے یعنی کسی کے پاس مال و دولت روپیہ پیسہ کی فراوانی ہے اور کسی کے پاس غربت ہے دونوں اللہ تعالیٰ کی آزمائش میں ہیں کیونکہ یہ منصب دنیاوی منصب ہیں اصل غریب اور اصل امیر کی پہچان تو بروز محشر ہوگی اور یہ پہچان ان کے اعمال کے سبب ہوگی اب دیکھیئے سید گھرانے کا ایک شخص تھا جس کی ایک بیٹی اور بیوی تھے پورے گھر کی ذمہ داری اس ایک شخص پر تھی پھر اچانک وہ شخص فوت ہوگیا یعنی اس کا انتقال ہوگیا اس کی بیوی اور بچی بہت پریشان ہوگئے سادات گھرانے سے تعلق کی وجہ سے وہ مانگ کر بھی گزارا نہیں کرسکتی تھیں پھر یوں ایک دن محلے والوں نے بھی انہیں گھر سے نکال دیا بھوکی پیاسی سارا دن یہاں وہاں گھومتی پھرتی جب شام کا اندھیرا ہونے لگا تو ایک مکان کی دیوار کے ساتھ بیٹھ گئیں یہ مکان ایک بہت مالدار شخص کا تھا جو تھا تو مسلمان لیکن بہت مغرور تھا جب اسے علم ہوا کہ اس کے مکان کے ساتھ کوئی ماں بیٹی بیٹھی ہوئی ہیں تو اس نے انہیں بلایا اور پوچھا کہ تم کون ہو اور یہاں کیا کررہی ہو ؟ تو عورت نے کہا کہ میں حضور اکرم ﷺ کے گھرانے سے ہوں یعنی سادات میں سے ہوں شوہر کا انتقال ہوگیا ہے ایک بچی کو لیکر پناہ کی تلاش میں ہوں تو اس مالدار شخص نے کہا کہ اگر تم سادات گھرانے سے ہو تو کوئی ثبوت ہے تمہارے پاس تو عورت بولی یہ علاقہ میرے لیئے نیا ہے یہاں نہ مجھے کوئی جانتا ہے اور نہ ہیں میں کسی کو جانتی ہوں تو ثبوت کہاں سے لائوں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس مالدار شخص نے اپنے نوکروں سے کہلوا کر اسے وہاں سے جانے پر مجبور کردیا وہ عورت اپنی بچی کو لیکر سامنے ایک اور مکان کی دیوار کے سہارے بیٹھ گئی تو بچی نے کہا کہ اماں اس گھر کے مالک نے بھی یہاں سے ہمیں اٹھا دیا تو ہم کہاں جائیں گے ؟ تو عورت نے بچی کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا کہ بیٹا اللہ اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ والیہ وسلم یعنی تمہارے نانا جان ہمارے ساتھ ہیں سب ٹھیک ہو جائے گا انشاء اللہ وہ گھر ایک مجوسی کا تھا جو مسلمان نہیں تھا اسے جب معلوم ہوا تو اس نے بھی ان دونوں کو بلایا اور پوچھا کہ تم کون ہو اور یہاں کیسے پہنچے تو عورت نے اسے بھی وہی سب کہا جو اس نے مالدار مسلمان شخص سے کہا تھا اس عورت کی بات سن کر اس نے فوراً ان دونوں ماں بیٹیوں کو اندر بلالیا انہیں ہاتھ منہ دھلوایا اور پیٹ بھر کر کھانا کھلایا اور عورت سے کہا کہ مجھے حیرت ہے کہ آپ کا ہم مذہب ہونے کے باوجود اس نے اپنے رسول صلی اللّٰہ علیہ والیہ وسلم کی گھرانے کے ساتھ ایسا سلوک کیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس مجوسی کے گھر میں جیسے رونق لگ گئی ہر وقت لوگوں کا ہجوم رہتا اور طرح طرح کے کھانے کی خوشبو آتی اور یوں دو تین گزر گئے پھر ایک دن اس مالدار شخص کے خواب میں ایک بہت ہی خوبصورت محل نظر آیا جہاں بڑی عالیشان اور عجیب و غریب چیزیں اس نے دیکھی پھر آواز آئی یہ جنت ہے کیسی لگی تو اس نے پوچھا کہ یہ کس کے لیئے ہے ؟ تو جواب ملا کہ مسلمان کے لیئے تو اس نے کہا کہ میں بھی تو مسلمان ہوں تو فرمایا گیا کہ اگر تم مسلمان ہو تو تمہارے پاس کیا ثبوت ہے کہ تم مسلمان ہو اور یوں اس کی آنکھ کھل گئی وہ پورا دن اس خواب کے بارے سوچتا رہا کہ آخر اس خواب کا کیا مقصد تھا تب اسے کچھ محسوس ہوا کہ آخر سامنے والے مکان میں ایسا کیا ہے کہ لوگوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے اور بڑی رونق لگی ہوئی ہے معلومات کرنے پر پتہ چلا کہ جن عورتوں کو اس نے گھر میں پناہ دینے کی بجائے گھر سے نکال دیا تھا یہ دونوں یہاں موجود ہیں اسی غیر مسلم شخص نے انہیں پناہ دی تھی اور آج انہی کی وجہ سے یہ رونق ہے تب اسے اس خواب کی حقیقت کا عمل ہوا اب وہ بھاگا اور اس غیر مسلم شخص سے کہا کہ مجھے سے بڑی بھول ہوگئی بڑی خطا ہوگئی تم مجھ سے جو چاہو لیلو ان دونوں عورتوں کو مجھے دے دو تو اس نے کہا کہ جب وہ تمہارے پاس آئی تھیں تو تم نے بیعزت کرکے نکال دیا تمہیں کیا معلوم کہ میں نے ان سادات پر اپنا جو مال خرچ کیا تو اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ایمان کی دولت بھر دی اور میرا پورا گھرانہ اب مسلمان ہوچکا ہے اب وہ میرے مہمان نہیں بلکہ میرے گھر والے ہیں ان کی موجودگی کی وجہ سے میرے گھر میں خیروبرکت کا سلسلہ جاری و ساری ہے اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے صدقے میرے پچھلے گناہوں کو معاف کردے گا اللہ و اکبر سبحان اللہ ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ نے دیکھا کہ اس واقعہ سے ہمیں کتنے سبق ملتے ہیں سادات گھرانے کی عزت کرنا اللہ تعالیٰ کو بھی پسند ہے اور حضور ﷺ کو بھی اور اللہ تعالیٰ اس کے عیوض بندے پر کتنا کرم کرتا ہے کہ نہ صرف اس کے مال میں برکت ہوتی ہے بلکہ اسے ایمان کی دولت بھی نصیب ہوگئی یہ صرف اور صرف اہل بیت سے محبت اور ان پر خرچ کرنے کی بدولت ہوا۔ اس واقعہ میں ہمیں ایسے لوگوں کے بارے میں بھی علم ہوا جنہیں اللہ تعالیٰ نے بیشمار مالو دولت سے نوازا ہوا ہے لیکن جب اللہ تعالٰی کی راہ میں خرچ کرنے بات آتی ہے تو وہ بخیل نظر آتے ہیں اور ایسے لوگوں کا بھی علم ہوا جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں تا انہیں اللہ رب العزت کس طرح اور کس راستے سے رزق عطا بھی کرتا ہے اور اس رزق میں برکت بھی عطا فرماتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس موضوع پر بڑی وسیع بات ہوسکتی ہے لیکن وقت کی ضرورت اور پڑھنے والوں کی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے مختصر اور جامع انداز میں اس کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے بس اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ مجھے سچ لکھنے ہم سب کو پڑھنے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاہ النبی الکریم ﷺ مجھے اپنی دعاؤں میں ضرور یاد رکھیئے گا ۔

محمد یوسف میاں برکاتی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button