آپ کا سلاماردو نظمشازیہ اکبرشعر و شاعری

وہ تو ہمیشہ یہ کہتی تھی

شازیہ اکبر کی اردو نطم

وہ تو ہمیشہ یہ کہتی تھی

وہ تو ہمیشہ یہ کہتی تھی
جاناں ! میں ہوں تیری لیکن
اسم مرا منسوب کسی کے نام سے ہے
وہ تو ہمیشہ یہ کہتی تھی
میری نیندیں ،میرے خواب ترے ہیں لیکن
جس بستر پر میں سوتی ہوں تیرا نہیں ہے
وہ تو ہمیشہ یہ کہتی تھی
میرے جنوں کا باعث تیری آنکھیں ہیں
لیکن اِن کے پاگل پن کو
عنواں کوئی نہ مل پائے گا
وہ تو ہمیشہ یہ کہتی تھی
دِل بستی میں ،سدا بسیں گی یادیں تیری
لیکن تیرے نام کی تختی کہیں نہ ہو گی
وہ تو ہمیشہ یہ کہتی تھی
میرے شعر نثار ہیں تُجھ پر
لیکن تیرے نام سے ہر گز
یہ نہ معنون ہو پائیں گے
وہ تو ہمیشہ یہ کہتی تھی
میرے شعر کی رگ رگ اندر
تیرا پیار ہی گونجے گا
لیکن دھڑکن گونگی رہے گی
وہ تو ہمیشہ یہ کہتی تھی
میری منڈیر پہ،جتنی شامیں بھی اُتریں گی
ان کے نور میں تیرے نام کا
ایک ستارہ روشن ہو گا
وہ تو ہمیشہ یہ کہتی تھی
میں آنگن میں کھلنے والی کچی کلی کے
مہکے مہکے بدن کو چھُو کر ،نام تمہارا لیا کروں گی
وہ تو ہمیشہ یہ کہتی تھی
دیکھو! ہر شب نیند سے پہلے،اپنی اُجلی پیشانی پر
میرے بوسے کی حدت کو زندہ رکھنا
وہ تو ہمیشہ یہ کہتی تھی
ساجن! ساتھی! سانول میرے
سانس کے تانے بانے تک
میں تیری ہوں تیری رہوں گی
وہ تو ہمیشہ یہ کہتی تھی
وہ تو ہمیشہ یہ کہتی تھی

شازیہ اکبر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button