وداعی بوسہ جبیں پہ رقم کیا جائے
پھر اس کے بعد بچھڑنے کا غم کیا جائے
میں بار بار جو سوتے میں چونک پڑتا ہوں
خیال و خواب کا آنکھوں پہ دم کیا جائے
ندی کی تیز روانی سے پوچھنا یارو
کنارِ آب کو اشکوں سے نم کیا جائے!!!
ابھی بہار کے آنے میں وقت باقی ہے
ابھی تو دشت میں تھوڑا سا رَم کیا جائے
یہاں پہ قیس نے پہلا پڑاو ڈالا تھا
یہاں پہ لازمی گردن کو خم کیا جائے
ذرا سی دیر اندھیروں کا مان رکھتے ہیں
ذرا سی دیر چراغوں کو کم کیا جائے
ہمارے ھاتھ کٹانے سے کچھ نہیں ہو گا
ہماری سوچ کا سر ہی قلم کیا جائے
یہ اشک ہیں تو انہیں پی کے دیکھئے صاحب
یہ آگ ہے تو اسے دل میں ضم کیا جائے
ابھی تو آنکھ گلابی ہوئی نہیں شاھد
ابھی تو ایک دو پیالہ بہم کیا جائے