- Advertisement -

شاید درِ یقین پہ رسائی کا وقت ہے

صدیق صائب کی ایک اردو غزل

شاید درِ یقین پہ رسائی کا وقت ہے
گرہ ِ گماں کی عقدہ کشائی کا وقت ہے

وارفتگی کے ساتھ ملے ہو کچھ اس طرح
یوں لگ رہا ہے جیسے جدائی کا وقت ہے

نکلے بدن سے روح تو خوش ہونا چاہیے
یہ قیدِ زندگی سے رہائی کا وقت ہے

سانسیں رکی رکی سی ہیں جذبات سرد ہیں
اور ٹھہرے پانیوں پہ یہ کائی کا وقت ہے

صائب نہیں یہ منزل ِ ادراک کا سفر
دشت ِ جنوں ہے آبلہ پائی کا وقت ہے

صدیق صائب

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
احمد ہمیش کی اردو نظم