اردو تحاریراردو کالمزروبینہ فیصل

کوئی بھی اپنوں جیسی بات اب کرتا نہیں ہے

روبینہ فیصل کا ایک اردو کالم

کوئی بھی اپنوں جیسی بات اب کرتا نہیں ہے
سو اپنے آپ سے ہم گفتگو کرنے لگے ہیں
سچا شاعر ایک ولی ہو تا ہے اس کا یقین مجھے کچھ دن پہلے ڈاکٹر ڈینس آئزک سے مل کر اور پھر گھر آکران کا یہ شعر(میری کسی پرانی ڈائری میں لکھاہوا تھا)پڑھ کر ہو گیا۔میں دعوی نہیں کرتی کہ میں ڈاکٹر ڈینس آئزک کوبہت اچھی طرح سے جانتی ہوں لیکن میں یہ دعوی ضرور کرسکتی ہوں کہ ڈاکٹر ڈینس جیسے حساس، دوسروں کا خیال رکھنے والے، محبتوں سے بھرے اور سادہ منش انسان کا یہ بات کہہ دینا کہ؛
” کوئی بھی اپنوں جیسی بات اب کرتا نہیں ہے ” کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ ایسے لمحات حساس دل رکھنے والوں کی زندگی میں بار بار آتے ہیں۔ وہ روز جیتے اور روز مرتے ہیں جسے ہم everyday struggle کہتے ہیں۔ مگر میں یہ نہیں جانتی تھی کہ ڈاکٹر صاحب جو محفلی آدمی تھے، دوستوں میں بیٹھ کر نہ صرف باتیں کرنا انہیں پسند تھا بلکہ موج میں آکر گھنٹوں اپنے ہارمونیم کے ساتھ ستر کی دہائی کے خوبصورت انڈین پاکستانی فلمی گانے سنایا کرتے تھے۔ نہ وہ سناتے ہوئے تھکتے تھے نہ ہم دوست سنتے ہو ئے۔رات گئے تک محفل چلتی رہتی۔ہمارے بچے تب چھوٹے چھوٹے تھے، گانا گاتے گاتے بڑے بیٹے ہادی کو کبھی کبھار گود میں بٹھا لیا کرتے تھے اور شائد اسی شفقت اور راگوں کا اثر ہے کہ آج، میوزک ہادی کا جنون ہے، وہ اسی میں سوچتا بولتا اور سوتا جاگتا ہے۔۔
مگر جب ڈاکٹر صاحب نے یہ مصرعہ لکھا ہو گا “سو اپنے آپ سے ہم گفتگو کرنے لگے ہیں “کیا انہیں معلوم تھا کہ وہ دوستوں اور اپنوں کو چھوڑ کر خود سے گفتگو کا جو آغاز کر چکے ہیں اس کا انجام alzheimerجیسی بیماری پر جا کر ہو گا، جہاں وہ اردگرد سے مکمل طور پر بیگانہ ہو جائیں گے، نہ فلیش بیک(یاد ِ ماضی) تنگ کریں گے اور نہ حال میں جینے کی سمجھ آئے گی اور نہ مستقبل کی فکریں انہیں گھیریں گی۔اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ مصرعہ ان کے دماغ میں گھر کرنے والی اس بیماری کی وہ شروعات تھی۔
ڈاکٹر ڈینس آئزک نے نہ صرف اپنوں اور غیروں سے بات کرنا چھوڑ دی ہے بلکہ ان کے چہرے پر ایک مسلسل ناراضگی کا تاثر آسن جمائے بیٹھا ہے، یہ میرا وہم بھی ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کس سے ناراض ہیں؟ میں جانتی ہوں کہ طبی شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ میری اس بات کو بے کار سمجھیں گے اور کہیں گے کہ یہ ایک دماغی مرض ہے جس کی مختلف سٹیجز ہو تی ہیں، یہ ایڈوانس سٹیج ہے جس میں مریض بولنا ہی بند کر دیتا ہے۔ اس کا دل سے نہیں دماغ سے تعلق ہے مگر میں پھر بھی یہی سوچتی رہوں گی کہ ڈاکٹر صاحب کس سے ناراض ہیں کہ حساس انسان کا ہر مسئلہ اور ہر مرض چاہے کتنا بھی دماغی کیوں نہ ہو وہ ہو کر دل سے ہی آتا ہے۔ ہو نہ ہو ڈاکٹر صاحب کے دل کو ضرور دھچکا لگا ہے اور ایک بھی نہیں بہت زیادہ۔ کچھ دھچکے یا صدمات یا حیرتیں جنہیں میں ڈی کوڈ کر سکتی ہوں وہ لکھ دینا چاہتی ہوں کہ شائد کسی اور کے لئے اس میں فلاح اور بھلائی کا راستہ ہو۔
ڈاکٹر ڈینس آئزک سے پہلی اصلی ملاقات فیملی آف دی ہارٹ کے فورم سے ہوئی تھی۔اس سے پہلے ہم ان کی لکھی گئی فلم” انتہا” پاکستانی سینما میں، شادی کے فورا بعد دیکھ چکے تھے اور اس رائٹر کے قائل تھے جسے ہم پہلے سے ہی ٹی وی ڈرامہ” کرب “اور” کروبی “سے جانتے تھے۔ مگر جب ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہو ئی تو ان کی انکساری دیکھ کر لگتا تھا کہ، وہ یا تو اپنی شہرت سے نا واقف ہیں اور یا پھر بے پرواہ۔ان کے ساتھ گزارے گئے وقت نے ثابت کیا کہ دوسری بات زیادہ درست تھی ڈاکٹر صاحب اپنی شہرت سے بے پرواہ تھے حالانکہ ان سے منسلک لوگ اس چیز سے ضرورت سے کچھ زیادہ ہی آگا ہ تھے اور اس بات کو مختلف طریقوں سے کیش کروانے کی کوشش بھی کیا کرتے تھے۔وہ اپنی شہرت کو کیش تو یقینا کبھی بھی نہیں کروانا چاہتے تھے مگر ایک بات جو میں نے ان سے پہلی تفصیلی ملاقات (جو ہمارے گھر ہو ئی تھی جس میں صرف ڈاکٹر خالد، پرویز صلاح الدین، مسز ماریہ ڈینس اور فیصل تھے) میں محسوس کی وہ ایک ان کہا کرب تھا جسے وہ اپنی چمکتی ہو ئی آنکھوں اور مسکراتے چہرے میں چھپائے بیٹھے ہم سب کو اپنی خوبصورت باتوں سے محظوظ کر رہے تھے۔اس رات کی ایک بات مجھے یاد ہے جب انہوں نے اپنی بیگم کو پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہو ئے بتایا کہ انہوں نے شادی کی پہلی رات انہیں اتنے گائے سنائے کہ وہ تنگ آگئی تھیں۔ اور میں نے ماریہ سے کہا تھا کہ کبھی آپ فیصل کو گاتے سن لیں تو اپنی قسمت پر رشک کریں۔۔ خیر چائے اور چٹکلے رات گئے تک چلتے رہے جس کے بعد ڈاکٹر صاحب پر گانے کا موڈ طاری ہوا تو پھر کوئی وہاں سے تین بجے تک ہل نہ سکا۔ اس وقت بھی مجھے محسوس ہوا کہ ڈاکٹر صاحب پاکستان سے بچھڑ کر اندر سے بہت اکیلے پڑ گئے ہیں۔ وہ پشاور میڈیکل کالج کے گریجویٹ۔جب انہوں نے کینڈا ہجرت کی تو پاکستان میں ایک سنئیر عہدے پر فائز ڈاکٹر تھے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ شو بز کی دنیا میں آنے کی وجہ سے شہرت کی بلندی پر تھے۔ کہنے کو ایسی ہجرتیں اپنی مرضی سے ہوا کرتی ہیں مگر یہ ویسا ہی اختیار ہے جیسا کسی لنگڑے کو کہہ دو کہ تمھیں چلنے کی مکمل آزادی ہے۔ ہم سب مہاجر لنگڑاتے ہو ئے آدھے دل سے اپنا ملک چھوڑتے ہیں، جہاز کی بیلٹ باندھنے تک ہم سوچتے رہتے ہیں کہ کوئی غیبی آواز یہ وعدہ کر دے کہ ہمارے ملک میں انصاف ہو گا، انسانوں کو برابری کے حقوق ملیں گے، حقیقت میں انسان صرف اپنے تقوی اور علم و ہنر کی بنیاد پر قابل ِ عزت ہو گا۔۔ واپس آجاؤ کہ تم کو کوئی کچل کر آگے نہیں بڑھے گا۔ تمھاری اور تمھاری آنے والی نسلوں کی جان مال اور تمھارے آبا ء کی قبریں اور تمھارا فر قہ،مذہب سب یہاں محفوظ ہو گا۔۔ واپس لوٹ آؤ۔۔ لیکن ایسی کوئی آواز نہیں آتی اور مہاجر اپنا بنا بنایا کئیریر، عزت، اعتماد، آباء کی قبریں چھوڑ چھاڑکر غیر دیسوں میں جا بستے ہیں اور ڈاکٹر ڈینس جیسے لوگوں کو شہرت اور بنا بنایا نام بھی چھوڑنا پڑتا ہے جو کہنے کو بہت آسان بات لگتی ہے مگر سہنے کو بہت کرب ناک۔۔
ڈاکٹر صاحب،عمر کے جس حصے میں کینڈا آئے وہ اپنی ڈاکٹری کی تعلیم بھی اپ گریڈ نہ کر سکے۔اور غالب اور میر والا زمانہ بھی لد گیا کہ فکر معاش ہو تو ہو، فن پھر بھی پھلتا پھولتا رہے گا۔۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملک میں، آج کی مادیت سے بھری ہو ئی صدی میں،اپنے ملک سے بچھڑ کر ڈاکٹر صاحب خود سے بھی بچھڑ گئے۔ میں جانتی ہوں کہ یہ ایک دماغی بیماری ہے جو کسی بھی عام انسان کو بھی ہو گی تو اس کی یاداشت ہی جائے گی اور جانتی ہوں طبیب کہیں گے کہ اس کا حساسیت سے یا غم و الم سے یا کسی محرومی سے کوئی تعلق نہیں مگر جب ان سے اس بیماری کی وجوہات پوچھو تو کہیں گے کہ یہ نامعلوم ہیں۔۔ تو جب نامعلوم وجوہات ہیں تو یہ مان لینے میں کیا حرج ہے کہ ایسی بیماریوں کا تعلق اندر کی تنہائی، دکھ، کرب اور اپنوں سے کھائے گئے دھوکوں سے بھی ہو سکتا ہے۔
ماریہ ڈینس نے مجھے اور فیصل کو اپنے گھر کھڑے پایا تو وہ حیرت سے زیادہ تشکر میں ڈوبی ہو ئی نظر آرہی تھیں۔ مجھے گلے لگا کر کتنی دیر تک وہ خاموش آنکھوں سے روتی رہیں اورمیں ان آنسوؤں کو محسوس کرتی رہی جو ان کی آنکھوں سے ٹپک نہیں رہے تھے۔ ماریہ، ڈاکٹر ڈینس کے خاموش ہو جانے کے بعد اتنی تنہا رہ جائے گی اس کا مجھے اندازہ نہیں تھا۔ ماریہ کا مزاج ڈاکٹر صاحب سے مختلف تھا۔ شخصیتوں میں تضاد کے باوجود، ان کا بندھن بہت گہرا تھا، ہے اور رہے گا۔ ڈاکٹر صاحب جب صحت مند تھے تب بھی کھانے کے اتنے شوقین نہیں تھے۔ ہاں پینے کا انہیں شوق تھا سگریٹ ہو یا شراب، مگر ہمارے احترام میں انہوں نے کبھی ہمارے سامنے ان چیزوں کا نام بھی نہیں لیا تھا۔لیکن جب ان کا اپنی ذات سے بچھڑنے کا عمل شروع ہوا تب ان سے کچھ بے احتیاطیاں ہونے لگیں۔۔ ہمارا ملنا جلنا کم ہو گیا۔۔ کچھ سال ہو تے ہیں جب ہر کوئی کسی نہ کسی کرا ئسس سے گزر رہا ہو تا ہے۔ وہ دکھ وہ اپنے دوستوں سے چھپا کر خود ہی جھیل جانا چاہتا ہے، تاکہ دوستوں کو جب ملے تو چہرے پر ہنسی ہی ہو، ایسے سال ہمارے پر بھی آئے، ہم ایک عجیب معاشی عذاب میں پھنسے ہوئے تھے۔ شاید انہی دنوں ڈاکٹر صاحب پر بھی معاشی اور جذباتی عذاب گزر رہے ہو نگے۔۔ ماریہ نے جب مجھ سے کہا روبی!! تم کہاں تھی؟ ان کے انداز میں چھپے محبت بھرے شکوے کو میں پہچان گئی مگر میں نے اپنی کوئی رام کتھا نہیں کھولی کہ کبھی کبھار بڑی سے بڑی وضاحتیں ان غموں کے آگے ہیچ لگتی ہیں جن میں ہم شریک نہیں ہو پاتے، لفظ مجبوری سے مجھے نفرت ہے کہ محبتوں کے درمیان اس لفظ کا استعمال ایک بہانے کے سوا کچھ بھی نہیں ہو تا۔ صرف اتنا کہہ پائی کہ ثمینہ پیرذادہ کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کی حالیہ ویڈیو دیکھنے سے پہلے تک میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ڈاکٹر صاحب اس حالت میں ہونگے۔ اور انہیں کیا بتاتی کہ بیماری کوئی سیکنڈل جیسی چٹ پٹی خبر نہیں ہو تی کہ پو رے شہر میں پھیلی ہو تی۔ کوئی اس پر بات نہیں کرتا، جو توانائی لوگوں کو سیکنڈل پھیلا کر ملتی ہے وہ کسی کی بیماری کی خبریں پھیلا کر نہیں ملتی اور وہ بھی ایسے انسان کی جو بے ضرر ہو، جس کی کسی سے دشمنی نہ ہو ورنہ دشمن دار لوگوں کی بیماری کی خبر بھی ایسے پھیلتی ہے کہ” دیکھا اپنے انجام کو پہنچ گیا۔۔ دیکھا میرا بدلہ خدا نے لے لیا۔” تو ڈاکٹر صاحب معصوم نے تو پورے شہر میں کسی کا دل نہیں دکھا یا تھا کہ کوئی ان کی بیماری سے لطف بھی لے سکتا لہذا یہ خبر نیو ز آف دی ٹاؤن بنی ہی نہیں تھی۔۔تو میرے جیسے گوشہ نشینوں کو خبر ہی نہ ہو پائی۔ (گوشہ نشینی بھی ایک دورہ ہے جو ہر حساس انسان کو کبھی بھی پڑ سکتا ہے)۔
ڈاکٹر صاحب کسی روٹھے ہو ئے بچے کی طرح بیٹھے تھے، انہوں نے آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا، سپاٹ آنکھیں اور سپاٹ چہرہ۔اور مجھے ان ہی کی زبانی سنا یا گیا ایک قصہ یاد آگیا کہ مشی گن کسی مشاعرے میں ایک بزرگ ان سے آکر بولے آپ ڈینس آئزک ہیں؟ کہا،جی میں ہی ہوں تو بزرگ کہنے لگے” اوہ! اچھا وہی ڈرامے باز ڈینس آئزک۔۔” (غالبا وہ ڈرامہ نگار کہنا چاہتے ہو نگے)۔ ڈاکٹرصاحب یہ قصہ سنا کر خود بھی خوب ہنسا کرتے تھے۔۔ آج انہیں گم سم بیٹھے دیکھ کر میں سوچ رہی تھی کہاں گم ہو گیا وہ ڈرامے باز ڈاکٹر۔۔ کاش ڈاکٹر صاحب سچ میں ڈرامہ نگار نہیں بلکہ ڈرامہ باز ہو تے اور ایک دم سے قہقہ مار کر کہتے اوہ روبینہ آئی ہے، آؤ فیصل آؤ بیٹھو۔۔ اور جس گرمجوشی سے وہ ہمیں ملا کرتے تھے ایک پل کو ہی سہی ہمیں اس ڈرامے کی جھلک دکھا دیں۔۔ میری آنکھوں میں بار بار پانی اتر رہا تھا۔۔ڈاکٹر صاحب جو چہروں کو پڑھنے کے عادی تھے، اس پانی کو دیکھ کر بھی بے خبر رہے۔
آخر وہ کس کس سے ناراض ہیں؟ ان کی بچوں جیسی صورت دیکھ کرمیں مسلسل یہی سوچتی جا رہی تھی۔پھر اچانک ہی جیسے ماریہ نے میرے دل کو پڑھ لیا ہو بولیں:
” روبینہ!! تم ان کے دوستوں میں وہ پہلا بندہ ہو جو انہیں اس حال میں دیکھنے آئی ہو۔۔ میں حیران ہوں وہ سب کہاں غائب ہو گئے ہیں جو ان کے نام اور کام کے پرستار تھے۔ ”
میں نے کہا ماریہ جی لوگوں کے بارے میں غلط فہمی نہ پالیں کبھی کبھار انسان اپنی کسی مصیبت میں پھنسا ہوتا ہے کہ اسے خود کو بچانا ہی مشکل لگ رہا ہوتا ہے، کبھی کبھار انسان اپنے پرانے تجربات کی وجہ سے یہ سوچتا ہے کہ شائد ہمارا جانا، گھر والوں کو اچھا نہ لگے، اور کبھی کبھار انسان اس کشمکش میں ہو تا ہے کہ وہ اتنے ہنستے مسکراتے زندہ دل انسان کو کیسے اس بے بسی کی حالت میں دیکھے گا کہ لوگ اتنی ذہنی الجھنوں میں گرفتار ہیں کہ وہ خود کو بچانے کی خاطر ایسی تیمارداریوں سے دور رہتے ہیں کہ اس کے بعد ان کی اپنی حالت کیا ہو گی۔ میں نے تو کئی لوگوں کو یہ بھی کہتے سنا ہے کہ ہم کسی کے مرنے کی تعزیت بھی نہیں کر سکتے کہ دکھ سے ہمارا کلیجہ ہی نہ پھٹ جائے۔خود کو بچانے یا خوشیوں کی اس دوڑ میں بس ہر کوئی اپنے اپنے حصے کی خوشیاں اور ذہنی سکون سمیٹنا چاہتا ہے۔
ماریہ کے حیران ہو نے کے دن ہیں، صدمات سہنے کے دن ہیں، لوگوں کے بدلتے رویے محسوس کرنے اور ان پر کڑھنے کے دن ہیں۔۔یہ دن کم و بیش ہر ایک پر آتے ہیں۔۔مگر جب انسان صحت مند ہو تا ہے، مشہور ہو تا ہے، پیسے والا ہو تا ہے جب اسے کسی کی ضرورت نہیں ہو تی تب وہ تکبر یا لاپرواہی کر رہا ہوتا ہے اور ضرورت مندوں کے ساتھ یہی رویہ اس کا بھی ہوتا ہے جس کا گلہ وہ دوسروں سے اس وقت کرتا ہے جب اس کا برا وقت شروع ہو تا ہے۔ ماریہ کی بات نے میری سوچ کی تائید کر دی اور ان میں یہ ہمت تھی کہ وہ اپنی غلطی تسلیم کر سکتیں کہنے لگیں: “جب صفیہ مریم کی بیماری کا میں پڑھتی تھی کہ وہ بیمار ہے تو میں بھی کبھی نہیں سوچتی کہ جا کر عیادت کرنااتنا ضروری ہے، مجھے بھی لگتا تھا کہ جا کر اپنے آپ کو اور پریشان کر آؤں گی لیکن تم جاتی تھی، تم بہادر ہو روبینہ۔۔۔.
“بہادر ہو ں یا بے وقوف میں نہیں جانتی مگر میں جو کرتی ہوں میرا قلب ِ اطمینان اسی میں ہے۔ جسے خود اذیتی بھی کہہ سکتے ہیں۔ڈاکٹر ڈینس کا ہی شعر ہے:
دھرتی جب بھی سبزہ مانگے،بادل بوندیں بو دیتے ہیں
ہم بھی خود کو خوش رکھنے کو جب جی چاہے رو دیتے ہیں
ہنستے مسکراتے دوستوں کو اس حالت میں دیکھنا، دنیا میں سب سے بڑی اذیت ہے لیکن میں اپنے ذہنی سکون کی خاطر ان سے جڑے رشتوں کو یہ مایوسی نہیں دے سکتی کہ دیکھو اس حال میں سب نے اکیلا چھوڑ دیا۔۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ جو لوگ عیادت کو نہیں پہنچ سکتے وہ بے حس یا خود غر ض لوگ ہیں بس ان کی خود کو دکھوں سے بچانے کی جنگ دنیا کی ہر چیز سے بڑی ہو تی ہے۔ وہ اپنے قلب ِ اطمینان کے لئے کچھ اور نیکی کا کام کرتے ہو نگے۔ اس کا فیصلہ ان کے اور ان کے ضمیر کے درمیان ہے، کسی کو کٹہرے میں کھڑا کرنے والے ہم کون ہیں، جو کہ خود ایک مٹی کا باوہ سا ہیں۔
براپمٹن کے ایک خوبصورت گھر میں رہنے والے ڈاکٹر ڈینس اور ماریہ ڈینس (بچے شادیوں کے بعد اپنے اپنے گھروں کو ہو گئے ہیں)ایک ایسی کہانی ہیں جس میں سیکھنے سمجھنے اور جینے کے لئے انسان کو بہت کچھ مل سکتا ہے۔ اس گھر میں ہم جب بھی جاتے تھے ماریہ صرف ایک ہی بلب جلایا کرتی تھی، کچھ لوگ اسے اس کی کنجوسی سے تعبیر کیا کرتے تھے، میں اسے ان کی کفایت شعاری سمجھا کرتی تھی۔ملاقات کے اس دن بھی وہی ایک بلب جل رہا تھا، صاف ستھرا گھر جو ماریہ کی سیلقہ شعاری کی گواہی دیتا ہے۔ مگر بقول ڈاکٹر ڈینس:
کسی معلوم تھا پت جھڑ سجا جائے گی اپنا گھر
ڈاکٹر ڈینس خاموش ہیں اور کسی بات پر کو ئی رد ِ عمل نہیں دیتے مگر دو باتیں آج بھی ان کے دل قریب ہیں۔۔ ایک میوزک اور دوسری کتاب۔۔ ڈاکٹر صاحب ایک استاد کی طرح سکھایا کرتے تھے۔ میں نے ایک دن انہیں کہا آپ ڈرامہ سکرپٹ کیسے لکھتے ہیں، انہوں نے اگلی ملاقات پر اپنی خوبصورت رائٹنگ میں سبز سیاہی سے لکھا گیا ایک نامکمل سا سکرپٹ دیا، جو اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ تب مجھے یاد ہے میں اسے پا کر یوں خوشی سے پھولے نہیں سما تی تھی کہ جیسے کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا ہو۔ ڈاکٹر صاحب سے عقیدت کا رشتہ ان کی انہی محبتوں کی وجہ سے بہت گہرا ہے۔
اب لونگ روم میں ٹی وی پر مسلسل میوزک چل رہا ہے،ہماری گفتگو ٹھیک سے ہو، ماریہ ریموٹ سے جب بھی آواز ذرا مدہم کرتی ہیں، ڈاکٹر صاحب کے سپاٹ چہرے پر ناگواری کی ایک ہلکی سی شکن ابھر آتی ہے۔۔
اور جب ماریہ نے انتہائی شوق سے میری نئی افسانوں کی کتاب کا ذکر کیا اور مجھے بتایا کہ وہ میری کتاب کی رونمائی میں آنا چاہتی تھیں مگر سواری کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے نہیں آسکیں تو میں نے اس کی تلافی کے لئے اپنی کتاب انہیں تحفتا پیش کی۔ انہوں نے ڈاکٹر صاحب کو کہا دیکھیں روبینہ کی ایک اور کتاب آگئی ہے اور ڈاکٹر صاحب کے ہاتھوں میں جیسے ہی کتا ب پکڑائی گئی تو وہ جو دنیا کی ہر چیز سے بیزار بیٹھے تھے،کتاب کو اس مضبوطی سے پکڑ لیا کہ چھڑوانا مشکل ہو گیا۔
میں نے ماریہ سے کہا ڈاکٹر صاحب سب بھول گئے ہیں، انسان، نام، رشتے، دوست سب کچھ (اسی دوران ان کے بیٹے کی دو پھول جیسی بیٹیاں انہیں ملنے آئیں، دادا کے گلے سے لگ کر انہیں چومتی رہیں، اور وہ جو ہمیشہ اپنی بیٹیوں میں جیتے تھے، اس وقت بھی پتھر بنے بیٹھے رہے ) مگر دیکھیں صرف کتاب اور موسیقی انہیں آج بھی متحرک کر دیتی ہے۔
ڈاکٹر ڈینس آئزک تو دنیا جہاں سے بیگانہ ہو گئے ہیں مگر ماریہ کے لئے یہ کڑی آزمائش کا وقت ہے۔ اللہ انہیں صبر اور ہمت دے۔ آمین

روبینہ فیصل

سائٹ ایڈمن

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button