سلام نیٹشے
تباہی کی کسی جدول ، کسی نقشے ، کسی بھی زائچے میں
رحم کا خانہ نہیں ہوتا
یہ آتی ہے تو آتی ہے
مصیبت کا کوئی مذہب
کوئی محراب و معبد ، کوئی خیرو شر نہیں ہوتا
یہ آتی ہے تو آتی ہے
ہلاکت کا کوئی سگنل نہیں ہوتا
یہ کالی ریل
پٹڑی چھوڑ کر ، لوہے کا پھاٹک پھاڑ کر
تھرائی گلیوں میں اتر کر شہر کو مسمار کرتی ہے
ہلاکت کا کوئی سگنل نہیں ہوتا
یہ آتی ہے تو آتی ہے !
یہ ان لوگوں پہ آتی ہے جو اس کے اہل ہوتے ہیں
یہ ان لوگوں پہ آتی ہے جو پورے ہیں
یہ ادھ پونے
کھڑی بالشت بونے
ڈیڑھ اینٹی مسجدی
ڈھائی کلیسائی
سوا دو راہبی
آدھی دھڑی بھکشی
دھڑا دھڑ جنس بے لذت کی صورت
سوچ کی منڈی میں قیمت ڈھونڈتے مردار چہروں پر نہیں آتی
یہ ان لوگوں پہ آتی ہے جو اس کے اہل ہوتے ہیں
یہ ان لوگوں پہ آتی ہے جو پورے ہیں
وہ جو پورے دنوں کے ہیں !!!
– – – – – – – – –
نیٹشے کے بت کے اندر گونجتا شہکار اب تیار تھا
نیٹشے کے جسم میں ہر پل دراڑیں پڑ رہی تھیں
نیٹشے کی سب دراڑوں سے دھوئیں کے آتشی نقش و نگاریں سرمئی آنچل نکلتے
نیٹشے کی آنکھ کے ڈھیلے پگھل کر بہہ گئے
اور سبز پانی گرم رخساروں کو چھو کر
ترمرا کر ، چرچرا کر اڑ گیا
پھر اس کا سینہ پھاڑ کر زرتشت ثانی نے زمانے میں قدم رکھا
اور اس کا کاسہء سر توڑ کر
شعلے پروں سے جھاڑتا
شاہین
ٹوٹی کھوپڑی کے کنگرے پر بیٹھ کر
گردن میں کالے سانپ کی کنڈلی گھما کر
منہدم ہوتی ہوئی دیوار پر پنجے دبا کر اڑ گیا۔۔۔
شعلے لپیٹے
روشنی کی دھجیاں اوڑھے ہوئے
فوق البشر کا راز سینے میں لیئے
اڑتے ہوئے شاہین کی پیہم دھڑکتی چھاوں میں
زرتشت ثانی
اپنے خالق نیٹشے کے بھربھرے ملبے پہ نقش پا بناتا جا رہا ہے
اے زمانے آ !
تماشا کر زمانے !!
نیٹشے کا سرخ پیغمبر دمکتی غار سے باہر نکلتا ہے
فراز کوہ سے
پتھر کے زینوں پر قدم رکھتا ہوا
کون و مکاں کی سیاہ وادی میں اترتا جا رہا ہے
– – – – – – – – – – – – – – – – –
حضرت نقد و نظر کی خانقاہ شر کے سجادہ نشینو !
نیٹشے کی خاک کاہے چھانتے ہو
اس پہ تم بہتان کاہے باندھتے ہو
کس لئے تہمت لگاتے ہو ؟؟
تم آخر کیوں مجاور زاویوں سے روشنی کی جانچ کرتے ہو
تمہیں زہریلے فتوے داغنے کا
اختیار ناروا کس نے دیا ہے ؟ ؟ ؟
نیٹشے نے اک جگہ ایسے ہی نقادوں کے بارے میں لکھا ہے
"- – – – – – اور ان دانش وروں اور عالموں کی بے لباسی میں نے کیا دیکھی کہ میرے پر نکل آئے
کہ مستقبل بعیدی آسماں کی سمت میں پرواز کر جاوں ۔”
انوکھے منصفو !
خودساختہ انصاف پردازو !!
یہ تم کس کی اجازت سے ڈھٹائی کی عدالت کھول کر بیٹھے ہوئے ہو
کیا تمہیں روحوں کے محضر پر
گزندہ سبز مہریں ثبت کرتے کپکپی طاری نہیں ہوتی ؟
دراندازو !
یہ آخر کس تجسس اور کیسی آرزو میں تم
بڑے تخلیق کاروں کے گھروں میں جھانکتے ہو
کس لیئے کومل لگاتے ہو ؟
یہ آخر کس توقع کے سہارے ان کے گھر کی سیڑھیاں چڑھتے ہو
اور سب کو بتاتے ہو
وہ کیسے بیٹھتا ہے
کس طرح اٹھتا ہے ، کیسے بات کرتا ہے
وہ کیسے دن پکڑتا ہے
وہ کیسے رات کرتا ہے !!
کسی تشریح زن
نقاد ، رائے دان، تفسیری کو کوئی حق نہیں اس کا
کہ وہ خالق کی ذاتی زندگی کا تجزیہ لکھے
بڑے تخلیق کاروں کے گھروں میں ان کے ملبے کے سوا
کچھ بھی نہیں ہوتا ۔ ۔ ۔
تباہی
یا مصیبت
یا ہلاکت ان پہ آتی ہے جو اس کے اہل ہوتے ہیں
یہ ان لوگوں پہ آتی ہے جو پورے ہیں
وہ جو پورے دنوں کے ہیں !!!