یک مژہ اے دم آخر مجھے فرصت دیجے
چشم بیمار کے دیکھ آنے کی رخصت دیجے
نو گرفتار ہوں اس باغ کا رحم اے صیاد
موسم گل رہے جب تک مجھے مہلت دیجے
خوار و خستہ کئی پامال تری راہ میں ہیں
کیجیے رنجہ قدم ان کو بھی عزت دیجے
اپنے ہی دل کا گنہ ہے جو جلاتا ہے مجھے
کس کو لے مریے میاں اور کسے تہمت دیجے
چھوٹے ہیں قید قفس سے تو چمن تک پہنچیں
اتنی اے ضعف محبت ہمیں طاقت دیجے
مر گیا میر نہ آیا ترے جی میں اے شوخ
اپنے محنت زدہ کو بھی کبھی راحت دیجے
میر تقی میر