بابا نور
’’کہاں چلے بابانور؟‘‘ایک بچے نے پوچھا۔ ’’بس بھئی،یہیں ذرا ڈاک خانے تک۔‘‘بابا نور بڑی ذمے دارانہ سنجیدگی سے جواب دے کر آگے نکل گیا اور سب بچے کھلکھلاکر ہنس پڑے ۔ صرف مولوی قدرت اللہ چپ چاپ کھڑا بابا نور کو دیکھتا رہا۔ پھر وہ بولا’’ہنسو نہیں بچو۔ ایسی باتوں پر ہنسانہیں کرتے ۔ اللہ تعالی کی ذات بے پروا ہے۔‘‘
بچے خاموش ہو گئے اور جب مولوی قدرت اللہ چلا گیا، تو ایک بار پھر سب کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ بابا نور نے مسجد کی محراب کے پاس رُک کر جوتا اتارا ننگے پاؤں آگے بڑھ کر محراب پر دونوں ہاتھ رکھے اسے ہونٹوں سے چوما، پھر اسے باری باری دونوں آنکھوں سے لگایا، الٹے قدموں واپس ہو کر جوتے پہنے اور جانے لگا۔ بچے یوں اِدھر اُدھر کی گلیوں میں کھسکنے لگے جیسے ایک دوسرے سے شرما رہے ہوں۔
بابا نور کا سارا لباس دھلے ہوئے سفید کھدر کا تھا۔ سر پر کھدر کی ٹوپی جو سر کے بالوں کی سفیدی سے گردن تک چڑھی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ اس کی سفید ڈاڑھی کے بال تازہ تازہ کنگھی کی وجہ سے خاص ترتیب سے سینے پر پھیلے ہوئے تھے۔گورے رنگ میں زردی نمایاں تھی ،چھوٹی چھوٹی آنکھوں کی پتلیاں اتنی سیاہ تھیں کہ بالکل مصنوعی معلوم ہوتیں۔ لباس ،بالوں اور جلد کی اتنی بہت سی سفیدی میں یہ دو کالے بھونرا نقطے بہت اجنبی سے لگتے۔ لیکن یہی اجنبیت بابا نور کے چہرے پر بچپنے کی سی کیفیت طاری رکھتی تھی۔اس کے کندھے پر سفید کھدر کا ایک رومال تھا جو لوگوں کے ہجوم سے لے کر مسجد کی محراب تک تین چار بار کندھا بدل چکا تھا۔
’’ڈاک خانے چلے بابا نور؟‘‘ دکان کے دروازے پر کھڑے ایک نوجوان نے پوچھا۔ ’’ہاں بیٹا، جیتے رہو۔‘‘ بابا نور نے جواب دیا۔ قریب ہی ایک بچہ کھڑا تھا۔ تڑاک سے تالی بجا کر چلایا’’ آہاہا ،بابا نور ڈاک خانے چلا۔‘‘ ’’بھاگ جا یہاں سے ۔‘‘نوجوان نے بچے کو گھُرکا۔ اوربابا نور جو کچھ دور گیا تھا ،پلٹ کر بولا’’ڈانٹ کیوں رہے ہو بچے کو ۔ٹھیک ہی تو کہتا ہے ۔ڈاک خانے ہی تو جا رہا ہوں۔‘‘ دور دور سے دوڑ دوڑ کر آتے ہوئے بچے بے اختیار ہنسنے لگے اور بابا نور کے پیچھے ایک جلوس مرتب ہونے لگا، مگر آس پاس سے نوجوان لپک کر آئے اور بچوں کو گلیوں میں بکھیر دیا۔
بابا نور اب گاؤں سے نکل کر کھیتو ں میں پہنچ گیا تھا۔ پگڈنڈی مینڈمینڈ جاتی ہوئی اچانک ہرے بھرے کھیتوں میں اترتی، تو بابا نور کی رفتار میں بہت کمی آجاتی۔ وہ گندم کے نازک پودوں سے پاؤں ،ہاتھ اور چولے کا دامن بچاتا ہوا چلتا۔ اگر کسی مسافر کی بے احتیاطی سے کوئی پودا پگڈنڈی کے آر پار کٹا ہوا ملتا، تو بابا نور اسے اٹھا کر دوسرے پودوں کے سینے سے لپٹا دیتا اور جس جگہ سے پودے نے خم کھایا تھا، اسے کچھ یوں چھوتا جیسے زخم سہلا رہا ہے ۔پھر وہ کھیت کی مینڈ پر پہنچ کرتیز تیز چلنے لگتا۔
چار کسان پگڈنڈی پر بیٹھے حقے کے کش لگا رہے تھے ۔ایک لڑکی گندم کے پودوں کے درمیان سے کچھ اس صفائی سے درانتی سے گھاس کاٹتی پھر رہی تھی کہ مجال ہے جو کسی پودے پر خراش آجائے۔ بابا نور ذرا سا رک کر لڑکی کو دیکھنے لگا۔وہ گھاس کی دستی کاٹ کے ہاتھ پیچھے لے جاتی۔ گھاس پیٹھ پر لٹکی گٹھڑی میں ڈال پھر درانتی چلانے لگتی۔ ’’بھئی کمال ہے۔‘‘بابا نور نے دور ہی سے کسانوں کو مخاطب کیا ۔’’یہ لڑکی تو بالکل مداری ہے۔ اتنی لمبی درانتی چلارہی ہے ۔چپے چپے پر گندم کا پودا اگ رہا ہے۔لیکن درانتی گھاس کاٹ لیتی ہے اور گندم کو چھوتی تک نہیں ۔ یہ کس کی بیٹی ہی۔؟‘‘
’’تو کس کی بیٹی ہے بیٹا؟‘‘ بابا نے لڑکی سے پوچھا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا، تو ایک کسان کی آواز آئی’’میری ہے بابا۔‘‘ ’’تیری ہے؟‘‘ بابانور کسانوں کی طرف جانے لگا۔ ’’بڑی سیانی ہے،بڑی اچھی کسان ہے۔ خدا حیاتی لمبی کرے۔‘‘ ’’آج کہاں چلے بابا؟‘‘ لڑکی کے باپ نے پوچھا۔ ’’ڈاک خانے ؟‘‘ دوسرے نے پوچھا۔ ’’ہاں‘‘بابانور ان کے پاس ذرا سا رک کر بولا’’میں نے کہا پوچھ آؤں شاید کوئی چٹھی وٹھی آئی ہو۔‘‘ چاروں کسان خاموش ہوگئے۔انھوں نے ایک طرف ہٹ کر پگڈنڈی چھوڑ دی اور بابانور آگے بڑھ گیا۔ابھی وہ کھیت کے پرلے سرے پر پہنچا ہی تھا کہ لڑکی کی آواز آئی ’’لسی پیوگے بابا نور؟‘‘
بابا نور نے مڑکر دیکھا اور گائوں سے نکلنے کے بعد پہلی بار مسکرایا۔’’پی لوں گا بیٹا ۔‘‘ پھر ذرا سا رک کر بولا۔ ’’پر دیکھ ذرا جلدی سے لادے ۔ڈاک کا منشی ہوا کے گھوڑے پر سوارر ہتا ہے،چلا نہ جائے۔‘‘ لڑکی نے گھاس کی گٹھڑی کندھے سے اتار وہیں کھیت میں رکھی ۔پھر وہ دوڑ کر مینڈ پر اُگی ایک بیری کے پاس آئی۔ تنے کی اوٹ میں پڑے برتن کو خوب چھلکایا ، ایلومونیم کا کٹورا بھرا اور لپک کر بابا نور کے پاس جاپہنچی۔ بابا نے ایک ہی سانس میں سارا کٹورا پی کر رومال سے ہونٹ صاف کیے، بولا’’نصیبہ اس لسی کی طرح صاف ستھرا ہو بیٹا۔‘‘اور آگے بڑھ گیا۔ مدرسے کے برآمدے میں ڈاک کا منشی بہت سے لوگوں کے درمیان بیٹھا روزانہ کے فارم پُر کر رہا تھا۔وہ دیہاتیوں کو معلومات سے بھی مستفید کرتا رہتا: ’’میرا سالا وہاں کراچی میں چپراسی کا کام کرتا تھا۔جب وہ مرا، تو مجھے فاتحہ پڑھنے کراچی جانا پڑا۔
بات یہ ہے دوستو کہ ایک بار کراچی ضرور دیکھ لو چاہے وہاں گدھا گاڑی میں جُتنا پڑے ۔اتنی موٹر کاریں ہیں کہ ہمارے گاؤں میں تو اتنی چڑیاں بھی نہیں ہوں گی۔ ایک ایک موٹر پر وہ وہ عورت ذات بیٹھی ہے کہ اللہ دے اور اللہ ہی لے۔بندہ نہ لینے میں ہے نا دینے میں۔بندوں کو پریوں سے کیا لینا دینا،اللہ کی قدرت یاد آجاتی ہے ،نماز پڑھنے کو جی چاہنے لگتا ہے۔ ’’ایک سیٹھ کہہ رہا تھا کہ بس ایک اور بڑی لام لگ جائے، تو کراچی ولایت بن جائے گی۔کہتے ہیں کتنی بار لام لگنے لگی پر لگتے لگتے رہ گئی ۔ کوئی نہ کوئی بیچ میں ٹانگ اڑا دیتا ہے۔ کہتے ہیں لام میں لوگ مریں گے۔کوئی پوچھے لام نہ لگی ، تو جب بھی تو لوگ مریں گے۔ لام میں گولے سے مریں گے،ویسے بھوک سے مر جائیں گے۔ٹھیک ہے نا۔‘‘
’’ٹھیک ہی تو ہے ۔‘‘ ایک دیہاتی بولا۔’’پر منشی جی پہلے یہ بتائو کہ لفافہ اکنی کاکب کروگے؟‘‘ منشی نے اسے کچھ سمجھانے کے لیے سامنے دیکھا، تو اس کی نظر ایک نقطے پر جیسے جم کر رہ گئی۔ اس کا رنگ فق ہو گیا اور وہ بجھی ہوئی آواز میں بولا’’بابا نور آرہا ہے۔‘‘ سب لوگوں نے پلٹ کر دیکھا اور پھر سب کے چہرے کملا گئے۔ بچے مدرسے کے دروازوں اور کھڑکیوں میں جمع ہو کر ’’بابا نور۔بابا نور۔‘‘ کی سر گوشیاں کرنے لگے۔ منشی نے انھیں ڈانٹ کر اپنی اپنی جگہ پر بٹھادیا۔ سفیدبراق بابا نور سیدھا مدرسے کے برآمدے کی طرف آ رہا تھااور لوگ جیسے سہمے جا رہے تھے۔ برآمدے میں پہنچ کر اس نے کہا’’ڈاک آگئی منشی جی۔؟‘‘
’’آگئی بابا ۔‘‘منشی نے جواب دیا۔ ’’میرے بیٹے کی چٹھی تو نہیں آئی ؟‘‘بابانے پوچھا۔ ’’نہیں بابا۔‘‘ منشی بولا۔ بابا نور چپ چاپ واپس چلا گیا۔دور تک پگڈنڈی پر ایک سفید دھبارینگتا ہوا نظر آتا رہا اور لوگ دم بخود بیٹھے اسے دیکھتے رہے۔ پھر منشی بولا’’ دس سال سے بابا نور اسی طرح آرہا ہے۔یہی سوال پوچھتا اور یہی جواب لے کر چلا جاتا ہے۔ بے چارے کو یہ یاد ہی نہیں رہا کہ سرکار کی وہ چٹھی بھی تو میں نے ہی اسے پڑھ کر سنائی تھی ۔اس میں خبر تھی کہ باباکا بیٹا برما میں بم کے گولے کا شکار ہو چکا۔جب سے وہ پاگل سا ہو گیا ہے۔ مگر خدا کی قسم ہے دوستو، اگر آج کے بعد وہ پھر بھی میرے پاس یہی پوچھنے آیا، تو مجھے بھی پاگل کر جائے گا۔‘‘
احمد ندیم قاسمی