سفر نامہ بھارت
اذان ہوئی تو سب لوگوں نے جامع مسجد دلی کا رخ کیا ہم بھی اذان کی آواز پر آبدیدہ ہو گئے۔ جامع مسجد دلی ایک مہربان میزبان کی طرح سامنے آگئی جو ہمیں بڑی محبت سے بلا رہی تھی۔ ہمارے ساتھ جو بے رخی پبلشرز نے برتی تھی اللہ اکبر اللہ اکبر کی آواز نے اس کا ازالہ کر دیا۔ ہم نے اپنا آپ اس کی کھلی باُنھوں میںدے دیا۔ ہمارے دل کو سکون اور آنکھوں کو قرار مل گیا۔ وضو کے دوران ہماری ملاقات ایک نوبیاہتا مسلمان جوڑے سے بھی ہوئی جو ہنی مون منانے دلی آیا ہوا تھا۔
اس بار ہم نے اپنا تعارف ڈرتے ڈرتے پبلشر کی بجائے بطور شاعر کروایا خلاف توقع تیر نشانے پر لگا اور اُنھوں نے نماز کے بعد دوبارہ ہم سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ جامع مسجد دلی اور بادشاہی مسجد لاہور میں وہی فرق ہے جو ان دو شہروں اور ان شہروں میں رہنے والوں لوگوں کے دلوں میں ہے پھر بھی دونوں مسجدیں مجھے اُن بہنوں کی طرح لگتی ہیں جو تقسیم کے وقت ایک دوسرے سے بچھڑ گئی ہوں۔ جامع مسجد دہلی کے صحن میں جو تالاب ہے اس کے پاس بیٹھ جائیں تو پھر اٹھنے کو جی نہیں چاہتا مسجد اور محبوب کی بانہوں میں ایک جیسا سکون ہوتا ہے دل کو عجب سا قرار آجاتا ہے۔
اس شخص کے پہلو میں سکوں کتنا ہے جبکہ
مسجد نہیں، مندر نہیں گرجا بھی نہیں وہ
نوبیاہتا مسلمان جوڑے نے مسجد کے صحن میں اُڑتے کبوتروں کے درمیان ہمارے ساتھ تصویریں بھی بنوائیں۔ دلہن نے اپنے مہندی والے ہاتھوں سے ہم سے آٹو گراف بھی لےے اور دولہا میاںنے ایک غزل سنانے کی فرمائش بھی کی اور دوسری غزل سننے سے معذرت بھی۔ ہم نے بھی اس تھوڑے کو بہت سمجھا اور اُنھیں پاکستان آنے کی دعوت دے کر رخصت کر دیا۔ انہوں نے بھی رندھی ہوئی آواز میں ہمیں الوداع کہا اور اس طرح ممنون نگاہوں سے ہمیں دیکھا جیسے ہم نے اُنھیں سرکاری دورہ پر بلایا ہو۔ جامع مسجد کی سیڑھیاں اُتر کر ہم چاندنی چوک کی طرف چل پڑے ملحقہ بازار میں اگرچہ گھریلو استعمال کی اشیاءسستے داموں فروخت ہوتی ہیں مگر صفائی کا فقدان ہے یا پھر یہ ہو سکتا ہے کہ ہم پہلی بار دلی آئے تھے تو ہمیںاس کا احساس ہو رہا تھا۔ یہاں کے رہنے والے ہوتے تو شاید ان لوگوںکی طرح اس بد بودار فضا کے عادی ہو چکے ہوتے۔
لال قلعہ کے ہم بالکل قریب پہنچ گئے مگر اسے فتح نہ کر سکے حالانکہ ہم اتنے پر امید تھے کہ اپنی جیب میںایک چھوٹا سا پاکستانی پرچم بھی ساتھ لائے تھے کہ اسے لال قلعہ پر چڑھ کر لہرائیں گے مگر ہمارا یہ خواب اس لےے شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا کہ لال قلعہ دیکھنے کے طے شدہ اوقات میں ہم وہاں نہ پہنچ سکے حقیقت تو یہ ہے کہ دشمن کو ہمارے عزائم کا پہلے ہی پتہ چل چکا تھا اور اس نے بہانہ بنا لیا ہم غلط وقت پر آئے ہیں۔ اب ہم اسے کیسے سمجھاتے کہ حملہ آور تو ہمیشہ غلط وقت پر ہی آتے ہیں خیر اتنی آسانی سے ہار ماننے والے تو ہم بھی نہیں تھے۔ ہم اگر لال قلعہ پر چڑھ کر پاکستانی پرچم نہ لہرا سکے تو دیوار کے ساتھ لگ کر لہرانے میں کامیاب ہو گئے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ فتح ہم نے بغیر کسی خون خرابے کے حاصل کی اور خود باسلامت ہنسی خوشی واپس لوٹ آئے۔
قلعہ سے باہر سڑک پر آٹو رکشہ والے آوازیں لگا رہے تھے مگر کوئی کوئی مرد مجاہد ان کی آواز پر لبیک کہہ رہا تھا۔ ہم سے ان میں سے ایک رکشہ ڈرائیور کی یہ کسمپرسی کی حالت دیکھی نہ گئی۔ اس کی درد بھری آواز نے ہمیں 50 روپے خرچ کرنے پر مجبور کر دیا اور ہم دلی کے مشہور اور تاریخی مقامات کی سیر کے لےے اس کے آٹو رکشہ میں برا جمان ہو گئے بمبمئے کی ایک ہندو فیملی یہاں پہلے سے ہمارے استقبال کے لےے موجود تھی اکثر ایسے مواقع پر بچے ہمیں دیکھ کے رونا شروع کر دیتے ہیں مگر اس بار ایسا نہیں ہوا بچے تو کیا بڑے بھی ہمیں دیکھ کر سہمے سہمے سے بیٹھے تھے اور آخر کیوں نہ بیٹھتے ہم لال قلعہ کے فاتح جو تھے۔
گائیڈ نما ڈرائیور خود بول رہا تھا یا کیسٹ لگا رکھی تھی یہ ایک مُعمّا تھا۔ دونوں صورتوں میں ہمیں بغیر کسی توقف کے معلومات بہم پہنچائی جا رہی تھیں مثلاً یہ روڈ فلاں مسلم بادشاہ کے نام پر ہے یہ فلاں مسجد، یہ فلاں مندر اور گردوارہ ہے۔ اُنھیں کس نے بنوایا کیوں بنوایا یہ تمام سوال جنھیں ہم زبان پر لا نہ سکے اس کے جوابات اس نے ہمیں خود ہی دے دےے۔ اداکاروں کی کوٹھیوں سے لے کر راستہ میں آنے والی پان شاپس تک کے بارے میں اس نے ہمیں اپنا فرض منصبی سمجھ کر بریف کیا۔ ہم بھی اپنی قسمت پر نازاں تھے کہ پچاس روپے میں نہ صرف دلی کے مختلف مقامات کی سیر بھی ہو رہی تھی اور مفت میں رہنمائی بھی مل رہی تھی۔ جہاں وہ ضروری سمجھتا آٹو روک کر ہمیں حکم نامہ جاری کر دیتا کہ یہ فلاں تاریخی جگہ ہے یہاں کیا کیا دیکھنا ہے اور کتنی دیر میں واپس آنا ہے۔ ہمیں چار ونا چار ایسا کرنا پڑتا، اس کا ہونا جو ہمارے لےے غنیمت تھا۔ باتوں باتوں میں ہم نے برلامندر، انڈیا گیٹ، سیکریٹیریٹ کی بلڈنگ، راشٹر پتی بھون، نہرو میوزیم اور اندرا گاندھی میموریل میوزیم دیکھ لیے اتنے مختصر وقت میں اتنی خوبصورت جگہوں کی سیر اور وہ بھی صرف پچاس روپے میں اتنی سستی سیاحت کا تو ہم نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔
ایک انگریز دانشور نے اپنے بیٹے کو ایک طویل خط لکھ کر آخر میں لکھا کہ میں یہ طویل خط تمھیں اس لےے لکھ رہا ہوں کہ مختصر خط لکھنے کا میرے پاس وقت نہیں تھا چونکہ ہمارے پاس وقت کی کمی کا کوئی مسئلہ نہیں اس لےے ہم ان جگہوں کا مختصر تذکرہ کےے دیتے ہیں۔ برلامندر دلی کے چند خوبصورت مندروں میں شمار کیا جاتا ہے راجھستانی سرخ پتھر سے بنایا گیا یہ مندر فنِ تعمیر کا نادر نمونہ ہے۔ یہ کناٹ پلیس کے بالکل مغرب میں واقع ہے۔ اس شوخ رنگ کے خوبصورت مندر کو ہندوستان کے ممتاز صنعت کار بی ڈی برلانے 1938ءمیں تعمیر کرایا۔ یہ لکشمی دیوی کے نام منسوب ہے جو خوشحالی اور اچھے مستقبل کی دیوی ہے۔
عام طور پر اسے برلامندر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دور سے اس کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے کسی دلہن نے عروسی لباس پہن رکھا ہو۔ ہم جب اس کے اندر داخل ہوئے تو مدھر آواز میں بھجن گائے جا رہے تھے اور یہ آواز جدید میوزک سسٹم کے تحت دیواروں میں نصب اسپیکروں سے آرہی تھی۔ ہماری نظر قسمت کا حال بتانے والی آٹومیٹک مشین پر پڑی تو فوراً ہم نے اس میں پانچ روپے کا سکہ ڈال دیا۔ مشین نے ایک پرنٹنڈ پیپر باہر نکال دیا جس پر ہماری قسمت کا حال درج تھا۔ قسمت کا حال چاہے وہ ہاتھ دکھا کر معلوم ہو یا زائچہ نکال کر یا اسٹار کے ذریعے اگر ہمارے فائدے کی بات ہو تو ہم اس پر یقین کر لیتے ہیں بصورت دیگر نہیں۔ پیپر پڑھ کر ہم فوراً قسمت کے لکھے پر ایمان لے آئے۔ ہمارا مستقبل ہم پر اتنا مہربان ہے یہ تو ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ اب تک ہم بے جا شکوہ ¿ تقدیر کرتے رہے تھے، لہٰذا ہم آنکھیں بند کر کے اچھے مستقبل کے سپنے دیکھنے لگے مگر داسیوں کی مدھر ہنسی نے جلد ہی ہماری آنکھیں کھول دیں۔ فضا میں ان گنت گھنگرو بجنے لگے۔
رنگ برنگی ساڑھیوں میں ملبوس ہندو لڑکیاں طشتریوں میں پھول اور جلتے دیئے اُٹھائے گزر رہی تھیں۔ سیندور لگائے جا رہے تھے دیوی کے درشن ہو رہے تھے ہم جتنی دیر اس مندر میں رہے اللہ کی شان دیکھتے رہے، اس کی مخلوق پر حیران بھی ہوتے رہے اور اپنے مسلمان ہونے پر شکر بھی ادا کرتے رہے جس کی وجہ سے ہم ہزار سجدوں سے بچ گئے تھے۔ ہمارے گائیڈ نما ڈرائیور نے ہمیں جو الٹی میٹم دیا تھا اس وقت پر ہمیں ہر حال میں آٹو تک پہنچنا تھا ورنہ وہ ہمیں بے یار و مدد گار چھوڑ کر چلا جاتا، یہ خیال آتے ہی ہم نے اتنے رومینٹک مندر میں مزید ایک لمحہ بھی رکنا گوارا نہ کیا اور برلامندر سے باہر آگئے۔
انڈیا گیٹ بہت اہم اور خوبصورت جگہ پر واقع ہے۔ یہ دہلی کی مصروف ترین شاہراﺅں کے درمیان موجود ہے پھر بھی یہاں آلودگی اور شور کا احساس تک نہیں ہوتا اور نہ ہی مٹی اور دھول ہے۔ اس کا منظر ایک پینٹنگ جیسا ہے اور یہاں آنے والے لوگ اس پینٹنگ کا حصہ بن جاتے ہیں اس سے جدا نہیں لگتے کاش ہماری آزادی کی یاد گار مینار پاکستان کے اردگرد بھی ایسی فضا ایسی دلکشی قائم ہو جائے مٹی، دھول اور شور نے شاہی مسجد، شاہی قلعہ اور مینار پاکستان کے حُسن کو گہنا دیا ہے۔ شام کے وقت انڈیا گیٹ دیکھنے کے لےے سینکڑوں کی تعداد میںلوگ آئے ہوتے ہیں جن میں غیر ملکی سیاح بھی کثیر تعداد میںہوتے ہیں۔
نتھری نتھری فضا، وسیع و عریض پارک میں خوش رنگ پھول اور عین وسط میں سرخ پتھر کا انتہائی خوبصورت گیٹ اور اسے دیکھنے والی آنکھیں، بہت پیارا منظر ہوتا ہے کچھ فاصلے پر بالکل چھوٹا سا ایک اور گیٹ ہے وہ شاید اس لیے تعمیر کیا گیا ہے کہ انڈیا گیٹ کو تنہائی کا احساس نہ ہو۔ یہاں مختلف اسکولوں اور کالجوں کے طلباءوطالبات بھی نظر آئے اور بچے بھی سچ تو یہ ہے گھر ہو یا پارک اس کا حُسن بچوں سے ہی مکمل ہوتا ہے وہ باغ جہاں تتلیاں پکڑنے اور پھول توڑنے والے بچے نہ ہوں اُداسی کی تصویر نظر آتے ہیں۔ یہاں بھی تتلیاں پکڑتے بچوں نے ہماری سہانی شام کچھ اور سہانی کر دی کچھ خوبصورت چہروں نے اس شام میں اپنے رنگ بھر دےے مگر ہم دلّی کی کوئی شام چرانہ سکے۔ حوصلہ ہی نہیں ہوا ایک انجانا خوف اور ڈر تھا ہم ہر وقت اس ڈر کے حصار میں ہوتے کہ ایک دشمن ملک میںہیں یہ احساس ایک لمحہ کے لےے بھی ختم نہ ہوا۔
دلّی میں ہمیں ہر مقام پر پلاوی، ایزون اور پرسادکی یاد آتی رہی مگر اب ان کو بھول جانا ہی بہتر تھا لیکن ہم میں ایک خرابی ہے وہ یہ کہ جو لوگ اچھے لگیں ان کو بھول جانا ہمارے بس میں نہیں بلکہ یہ تو خود اپنا آپ وہاں بھول آتا ہے۔
بھول آیا میں اپنا آپ وہاں
چار دن جس جگہ قیام کیا
جب شام کی رنگینی، اُداسی اور فسردگی میں بدلنے لگی تو ہم وہاں سے لوٹ آئے اسی میں ہمارا فائدہ تھا وکرم ہوٹل کے پاس اُترتے ساتھ لاجپت بھون ہے۔ وہاں پہنچ کر دل کو تسلی ہو جاتی سارا ڈر ختم ہو جاتا پتہ نہیں اس کی کیا وجہ تھی۔
دلّی کی عبادت گاہوں میں ہمیں بہائیوں کا لوٹس ٹیمپل (کنول مندر) سب سے زیادہ پسند آیا سنگ مرمر سے بنی یہ عمارت اپنی مثال آپ ہے شاید کہ دلی میںاس سے خوبصورت عمارت کوئی اور ہو اس کا ڈیزائن کنول کے پھول کے مشابہہ ہے۔ ایک بات جس نے لوٹس ٹیمپل کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیئے ہیں وہ ہے اس کے اردگرد تاحد نظر پھیلے ہوئے سبزے کے میدان اور ان میں کھلے ہوئے رنگا رنگ پھول۔
دلّی شہر جہاں کوئے یار میں دوگز جگہ نصیب نہیں ہوتی اتنے وسیع رقبہ پر لوٹس ٹیمپل کی تعمیر نے ششدر کر دیا۔ تاج محل کی طرح یہ خوبصورت ٹیمپل بھی اپنی مقناطیسی کشش سے دور سے اپنی طرف کھینچتا ہے۔ قدم خود بخود اُس کی طرف اُٹھتے چلے جاتے ہیں۔ کیاریوں کے درمیان کنول مندر تک اینٹوں کی سڑک ہے اس سڑک پر چل کر ٹیمپل تک جانا بہت خوبصورت نظارہ ہے اور کیسے نہ ہو۔ وہاں کنول مندر جیسی خوبصورت لڑکیاں استقبال کےلےے موجودہ ہوتی ہیں اور وہ بھی خموشی اور دھڑکنوں کی زبان میںمحو کلام، ہاتھوں میں بہائی مذہب کا لٹریچر تھامے، زندگی پر پیار آنے لگتا ہے۔ سفید کنول مندر کی خوبصورت عمارت، اُس کے چاروں طرف نیلے پانی کے تالاب اور سفید کپڑوں میں ملبوں سندر بہائی لڑکیاں۔ پرستان اور پریوں کا ذکر کہانیوں میں پڑھا تھا۔ آج تو ہم سچ مچ وہاں موجود تھے۔ ایک لمحے کے لےے یوں لگا جیسے ہم رستہ بھولے شہزادے ہیں۔
کنول مندر کے اندر کی خوبصورتی اور دلکشی سوا تھی۔
مکمل خاموشی۔
انسان اور خدا کی ٹوٹے ہوئے رشتے کو جوڑنے کا وسیلہ۔
یہاں زندگی ٹھہر گئی تھی۔ وقت جیسے رک رک کر قدم اٹھا رہا ہو۔
آج پہلی بار احساس ہوا خاموشی سے پیاری بھاشا اور کوئی نہیں۔ یہاں ہمارا قیام نہایت خوشگوار تجربہ تھا۔ بہائی لڑکیوں کی مسکراہٹ نے تو خاموشی کو گیتوں بھرا بنا دیا۔
——٭٭٭——
وہ شرابی، کبابی
جب ہمیں پتہ چلا کہ حضرت نظام الدینؒ، امیر خسروؒ، اور مرزا غالبؒ کے مزار قریب قریب ہیں اورلاجپت بھون سے زیادہ فاصلہ بھی نہیں تو دل نے وہاں جانے کی رٹ لگا لی۔ خواہشوں کی کچی کلیاں تو نہیں جانتی کب کھلنا اور کب مرجھانا ہے۔ ہم نے یوسف بلوچ کا ہاتھ تھاما اور وہاں پہنچ گئے۔ یہاں کچھ نیا نہیں تھا وہی فضا وہی ماحول جو ہر جگہ صوفیاءکرام کے مزاروں کے باہر نظر آتا ہے۔
سبز چادروں کی دُکانیں، مٹھائیوں کی دُکانیں، کتابوں اورکیسٹوں کی دکانیں اگر بتیوں کی خوشبو، قوالیوں کی آواز، میلے میلے کپڑوں میں ملبوس لمبے لمبے بالوں والے ملنگ، جنھوں نے کلائیوں میں کڑے، گلے میں موتیوں کی مالائیں پہن رکھی ہوتی ہیں اور ان کے جسم سے بدبو کے بھبکے نکل رہے ہوتے ہیں۔ ان کے قریب سے گزریں تو سانس تک لینا دشوار ہو جاتا ہے پھر ڈھیٹ نسل کے فقیر جو اللہ کے نام پر بھی جان نہیں چھوڑتے۔ صوفیاءکے مزاروں کے باہر ایسے ماحول میں ہمیشہ سے ہمارا دم گھٹتا ہے۔ دل کو بہت تکلیف اور ذہن کو بڑی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے مگر کیا کریں محبوب تک جانے کے لےے راستے کی سختیاں اور تکلیفیں تو برداشت کرنا ہی پڑتی ہیں۔ یہاں تو ایک نہیں تین تین برگزیدہ ہستیاں موجود تھیں۔ سو ہم بھی ان فقیروں اور دوکانداروں کی صفوں کو چیرتے ہوئے درگاہ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ حضرت نظام الدینؒ کے احاطہ میں جہاں قوال حضرات قوالی پیش کر رہے تھے۔ قوالی سننے والوں میں ایک طرف عورتوں اور ایک طرف مردوں کا ہجوم تھا یہاں بھی سجادہ نشین، گدی نشین اور مجاور حضرات عقیدت اور محبت میں حاضری کے لےے آنے والوں کی جیبیںخالی کرنے میں مصروف تھے۔
ہر طرف ہاتھ ہی ہاتھ اور جھولیاں ہی جھولیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ نظام سرکارؒ سے مانگنے والے ہاتھ، ان سے مانگنے والی جھولیاں، ضرورتوں اور حاجتوں کے مارے ہوئے لوگ، دھکم پیل، بے قابو ہجوم، جلد بازی، افراتفری، ہنگامہ ہی ہنگامہ، کوئی ضبط کوئی ٹھہراﺅ کوئی سکون نہیں تھا جیسا کہ ہمارے چھوٹے سے شہر میں حضرت خواجہ خدا بخشؒ کے مزار پر ہوتا ہے۔ گنتی کے لوگ عقیدت اور محبت سے بھرے ہوئے، برآمدے اور صحن میںبے فکر آکر لیٹ جاتے ہیں جیسا کہ دربار کا حصہ بن گئے ہوں۔ کسی گھٹن کا احساس نہیںہوتا۔ گرمیوں میںبھی ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے بچپن میں ہم امتحانوں کے دوران صبح خواجہ صاحبؒ کے مزار پر حاضری دے کر جاتے۔ جلدی ہوتی تو دروازے کو چھو کر ہاتھ آنکھوں اور دل سے لگاتے تا کہ پیپرز اچھے ہوں۔ کمرہ ¿ امتحان میںیقین ہوتا کہ خواجہ صاحبؒ کی مدد ساتھ ہے۔
پیپر خراب ہو جاتا تو پھر بھی دل کو تسلی ہوتی خواجہ صاحبؒ کی سفارش چل جائے گی۔ غریب شاہؒ کا مزار جو ہمارے شہر سے تقریباً دس بارہ کلو میٹر دور نہر کنارے کے ساتھ ٹیلوں میں تھا اور اس کے ساتھ ٹھنڈے پانی کا کنواں، ساتھ ہی قبرستان اور تاحدِ نظر کھُلا آسمان، کھُلی فضا، تازہ آب و ہوا جب کنویں سے پانی کا بوکا باہر آتا تو بڑی خوشی ہوتی پھر ٹھنڈے پانی سے ہاتھ پاﺅں اور منہ دھونے سے ہم سرشار ہوجایا کرتے۔ یہاں آنے والوں کو بھی کوئی جلدی نہ ہوتی زیادہ تر نو راتیں ٹھہرنے کے لےے آتے مگر حضرت نظام سرکارؒ کے مزار پرہجوم دھکم پیل اور افرا تفری تھی احاطہ بھی تنگ تھا مجھے بھی ممتاز مفتی کی طرح ان صوفیاءکرام کے حوصلے پر حیرت ہوتی ہے کہ کیسے کیسے لوگوں کو برداشت کرتے ہیں۔ صبح وشام درخواستیں وصول کرتے ہیں کبھی اُکتاتے نہیں تنگ نہیں آتے۔ امیر خسروؒ کے دربار پر حاضری دینے والوں کا بھی یہی عالم تھا ان میں سے زیادہ تر لوگ ان کے علمی، ادبی اور موسیقی کے حوالوں سے کم کم واقف تھے۔ وہ تو اتنا جانتے تھے کہ یہ حضرت نظام سرکارؒ کے عاشق اور مرید خاص تھے وہ اتنا جانتے تھے کہ یہ بندہ ¿ خدا حضرت نظام سرکارؒ کے رنگ میں رنگا ہوا تھا اس لےے وہاں بھی حاضری دینے والوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔
ہم نے ایک مولانا صاحب سے بڑے فخریہ انداز میں اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا:
”السلام علیکم یا حضرت ہم پاکستان سے آئے ہیں ہمیں مرزا اسد اللہ غالب کے مزار کے بارے میں بتا دیجیے کس طرف ہے“۔
ہمارا جملہ مکمل ہوتے ہی مولانا صاحب کا چہرہ لال سرخ ہو گیا۔ آنکھیں غصہ سے باہر نکل آئیں یوں لگا جیسے ہم نے ان کے سر پر ہتھوڑا مار دیا ہو وہ ہم سے چار قدم پیچھے ہٹ کر بولے:
”وہ شرابی کبابی“۔
بے ساختہ ہماری زبان پر مرزا غالب کا یہ شعر جاری ہو گیا۔
ہوئے ہم جو مر کے رسوا ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا
نہ کہیں جنازہ اُٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
اس شعر میں کتنی بڑی حقیقت پوشیدہ تھی اس کا ادراک ہمیں اس روز ہوا۔ ہم اس شعر کو گنگناتے، سردھنتے مرزا غالب کے مزار تک کسی نہ کسی طرح پہنچ ہی گئے چھوٹے سے احاطہ میں سنگ مرمر سے بنا چھوٹا سا مقبرہ اس کے ساتھ چند قبریں، لکڑی کا مقفل دروازہ، درو دیوار سے حسرت ٹپک نہیں بلکہ برس رہی تھی۔ دل کو بہت تکلیف ہوئی کہ اردو اور فارسی زبان کے اتنے بڑے شاعر کے مزار کی یہ حالت اس قدر اُداسی، تنہائی اور ویرانی۔
اسی دوران کچھ اور لوگ جو غالب کے چاہنے والے تھے اس ”مفرور محافظ“ کو ڈھونڈ کر لے آئے جس کے پاس مزار کے گیٹ کی چابی تھی اور وہ بڑی دیر سے غائب تھا۔ دروازہ کھلا تو ہم مقبرہ کی دیوار سے لگ کر بیٹھ گئے۔ مرزا کی زندگی کی فلم ہمارے تصور میں چلنے لگی۔ مرزا کی شوخیاں، باتیں، خطوط، شاعری، لطیفے، تنگدستی، مے نوشی سب کچھ ایک ایک کر کے یاد آرہا تھا کچھ لوگوں نے مرزا کی لحد پر پھول چڑھائے۔ ہم نے مرزا کے چند شعر حاضرین کو سنائے کسی نے لطیفے اور کسی نے مرزا کے خطوط سے اقتباس سنائے تو مزار کی تنہائی تھوڑی دیر کے لےے آباد ہو گئی۔
آخر میں ہم سب نے اس عظیم شاعر کے لےے فاتحہ پڑھی بہرحال عجیب درد بھری خاموشی اور تنہائی کا احساس ہمیں وہاں ہوا اس خموشی اور تنہائی میں اگر کوئی ہنستا اور بات کرتا تو یوں لگتا جیسے برسوں ویران پڑے کنویں میں کسی نے پتھر پھینکا ہو۔ ہم کچھ دیر تو اس خموشی کا حصہ بن کر بیٹھے رہے اس سے ہمکلام نہ ہو سکے اورپھر بوجھل قدموں اور ملول دل کے ساتھ ایک بار پھر لاجپت بھون لوٹ آئے۔
ہمارے کان میں ایک روز عابد گوندل نے چپکے سے کہہ دیا تھا کہ دلی کے سینماﺅں میں جو فلم دیکھنے کا مزہ ہے وہ دنیا میں کہیں اور نہیں پورے انڈیا کی سیر ایک طرف اور فلم دیکھنے کا لطف ایک طرف۔ فلم دیکھنے کی لت ہمیں بھی بچپن سے پڑی ہوئی تھی۔
کراچی کے تمام خوبصورت سینماﺅں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہم وہاں بچپن میں فلم دیکھتے رہے ہیں جن میں نشاط، پرنس، بمبینو، کیپری اور ریگل وغیرہ شامل ہیں۔ عابد گوندل نے فلم کی بات کر کے ہماری دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ ہم نے ایک لمحہ تاخیر کےے بغیر تیاری کر لی تھوڑی دیر بعد ہم ایک آٹو والے بھائی کی بنتی کر رہے تھے کہ ہمیں اس سینما پر چھوڑ دیجےے جہاں ”اشوکا“ لگی ہو۔ ”اشوکا“ شاہ رخ اور کرینہ کی نئی فلم تھی جو مہان بادشاہ ”اشوکا“ کی زندگی پر تھی اور ان دنوں پاکستان اور بھارت میں اس کے بڑے چرچے تھے۔
ہمیں کرینہ کی آنکھیں بہت پسند ہیں سو ہم ان بڑی بڑی آنکھوں کو بڑی سکرین پر دیکھنا چاہتے تھے۔ تین سینماﺅں پر گئے مگر آٹو والا اپنے روپے بنانے کے چکر میں تھا شاید اسے بھی اندازہ ہو گیا تھا یہ ”اشوکا“ دیکھے بغیر ٹلنے والے نہیں آخر کار تھوڑی سی اور مُسافت، تھوڑی سی اور تگ و دو کے بعد ہم اس نیک مقصد میں کامیاب ہو گئے۔ کناٹ پیلس کے ایک سینما میں اشوکا لگی ہوئی تھی پہلے تو ہم گھبرا گئے ہر طرف جوڑے ہی جوڑے۔ نوجوان جوڑے فلم دیکھنے آئے ہوئے تھے۔ ”گرل فرینڈ، بوائے فرینڈ“ ہاتھوں میں ہاتھ، آنکھوں میں آنکھیں، ہم نے سوچا سینما سے باہر اتنا رومینٹک (Romantic) ماحول ہے تو اندر کیا ہوگا۔ تمام لڑکے لڑکیوں نے جنیز (Jeans) پہنی ہوئی تھی۔ عابد گوندل اور ہم نے ایک دوسرے کے منہ کی طرف دیکھا اور اپنا سا منہ لے کر رہ گئے عابد گوندل نے سچ کہا تھا:
فلم دیکھنے کا جو مزہ اس شب آیا زندگی میں کہیں اور نہیں آیا۔ اگلی صبح ہمارے لےے زندگی کی یادگار صبح تھی۔ نثار اے سنی نے وعدہ پورا کر دیا اور ہم آگرہ کے لیئے روانہ ہو گئے۔
حسن عباسی