سبز دھند میں لپٹا ہوا ایک خواب تھا، ایک ایسا خواب جس نے حقیقت کا روپ دھار لیا۔ پانی کے اس پرسکون آئینے میں، جہاں ہر لہر کے ساتھ کوئی راز چھپتا ہوا محسوس ہوتا ہے، ایک دیوی نے قدم رکھا۔ یہ دیوی کسی اور دنیا سے آئی ہوئی معلوم ہوتی تھی، جیسے قدرت نے اپنی سب سے حسین تخلیق کو خاموشی سے اس دنیا کے حوالے کر دیا ہو۔
یہ دیوی، جس کی مسکراہٹ میں ہزاروں کہانیاں تھیں، ہاتھوں میں سرخ اور سنہری رنگوں سے بھرا ہوا ایک ایسا لباس تھامے تھی، جو اس کی روح کے رنگوں کو ظاہر کر رہا تھا۔ ہر نقش و نگار جیسے کسی فلسفے کا حصہ تھا، ہر رنگ جیسے کسی داستان کا آغاز۔ وہ پانی میں کھڑی تھی، لیکن ایسا لگتا تھا جیسے وہ پانی کی روح ہو، جو زمین پر اتری ہو۔
پانی کی شفاف تہوں میں اس کا عکس لرز رہا تھا، جیسے یہ آئینہ اس کی حقیقت کو قید کرنے سے قاصر ہو۔ شاید یہ عکس اس دیوی کی گہرائی کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا، لیکن ہر بار ناکام ہو جاتا تھا۔ وہ دیوی، جو حقیقت میں تھی بھی اور نہیں بھی، پانی کی لکیروں کے بیچ سے جھانکتی ہوئی جیسے کسی نادیدہ خواب کی تعبیر ہو۔
یہ دیوی ہمیں ایک اہم سبق سکھاتی ہے۔ حسن صرف ظاہری نہیں ہوتا؛ یہ روح کی گہرائی میں چھپا ہوا وہ راز ہوتا ہے، جو صرف ان لوگوں کو نظر آتا ہے، جو دیکھنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ یہ دیوی صرف ایک عکس نہیں، بلکہ ایک علامت تھی—ایک علامت اس بات کی کہ حسن کبھی مکمل نہیں ہوتا، اور نہ ہی اسے قید کیا جا سکتا ہے۔
پانی کی گہرائی اور دیوی کی گہرائی ایک دوسرے کے عکاس تھے۔ دونوں پرسکون تھے، مگر ان کے اندر ایک طوفان چھپا تھا۔ یہ طوفان ان رازوں کا تھا جو دیوی نے اپنی مسکراہٹ کے پیچھے چھپائے ہوئے تھے۔ کیا وہ کسی دکھ کی کہانی تھی؟ یا پھر وہ ایک ایسی کہانی تھی، جو کبھی شروع ہی نہیں ہوئی؟
دیوی کا حسن ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ حقیقت میں ہر خوبصورتی اپنے اندر ایک راز چھپائے رکھتی ہے۔ یہ راز ہمارے دیکھنے کے انداز پر منحصر ہوتا ہے۔ پانی میں لرزتا ہوا عکس ہمیں بتاتا ہے کہ زندگی بھی ایسی ہی ہے۔ یہ خوبصورت ہے، مگر اسے سمجھنے کے لیے ہمیں اپنے اندر کی گہرائیوں میں جھانکنا ہوگا۔
پانی کی لہریں دیوی کے گرد رقص کر رہی تھیں، جیسے اسے اپنی دنیا کا حصہ بنانے کی کوشش کر رہی ہوں۔ لیکن دیوی کی آنکھوں میں ایک آزادی تھی، جو اس کے ارد گرد کے سب عناصر کو مجبور کر رہی تھی کہ وہ اس کی حقیقت کو قبول کریں، اسے سمجھنے کی کوشش نہ کریں۔
یہ دیوی، جو حسن اور فلسفے کا امتزاج تھی، ہمیں ایک پیغام دے کر چلی گئی۔ ہم سب اپنے اپنے پانی کے آئینے میں قید ہیں، اپنی کہانیوں اور رازوں کے ساتھ۔ لیکن ہم بھی دیوی کی طرح اپنی آزادی کو چن سکتے ہیں، اپنی مسکراہٹ کے پیچھے چھپے رازوں کو صرف ان لوگوں کے لیے ظاہر کر سکتے ہیں، جو انہیں دیکھنے کے لائق ہوں۔
آخر میں، پانی کی لہریں تھم گئیں، اور دیوی کی شبیہہ آسمان میں غائب ہو گئی۔ لیکن اس کا عکس ہمیشہ کے لیے ہمارے دلوں کے آئینے میں نقش ہو گیا۔ یہ دیوی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ حسن صرف نظر کا دھوکہ نہیں، بلکہ ایک گہری حقیقت ہے، جو سمجھنے والوں کے لیے ایک لازوال راز بن کر رہ جاتی ہے۔
شاکرہ نندنی