جب محبت میں مبتلا نہیں تھا
تب کوئی بھی مرا خدا نہیں تھا
زخم اس وقت بھی تھا دل پہ مرے
پھول جب شاخ پر کھِلا نہیں تھا
جب میں ہر بات اس کی مانتا تھا
دل کسی کو بھی مانتا نہیں تھا
اتفاقاً بچھڑ گئے ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ محبت میں طے ہوا نہیں تھا
اس کو دیکھا نہیں تھا جب میں نے
تب میں خود کو بھی دیکھتا نہیں تھا
اس کی چاہت بھی اس میں شامل تھی
چائے میں صرف زائقہ نہیں تھا
اس کو نفرت نہیں تھی نفرت سے
زندگی اس کا مسئلہ نہیں تھا
طارق جاوید